اس کتابچے پر
بعض بزرگوں
نے یہ گرفت فرمائی ہے کہ اس کی بعض عبارات سے عاصی اور گنہگار اہل ایمان کے اپنے گناہوں کے بقدر سزا پانے کے بعد جہنم سے رہائی پانے کی نفی ہوتی ہے۔ میں اس سے براء ت کرتا ہوں۔ میری رائے بھی یہی ہے کہ جس مسلمان کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا وہ بالآخر جہنم سے نجات پاجائے گا۔ اس کتابچے میں جہاں جہاں لفظ نجات آیا ہے اس سے مراد ’اول وھلے میں نجات‘ ہے‘ یعنی یہ کہ انسان کو جہنم میں بالکل ڈالا ہی نہ جائے اور میدانِ حشر ہی میں رحمت و مغفرتِ خداوندی اس پر سایہ فگن ہو جائے!
------------- مزید برآں -------------
اس کتابچے کی زبان‘ قانون اور فتویٰ کی نہیں بلکہ ترغیب و ترہیب کی ہے --- ورنہ میرا موقف بھی وہی ہے جو امام اعظم ابوحنیفہؒ کا --- یعنی گناہِ کبیرہ کے ارتکاب سے بھی کوئی شخص کافر نہیں ہوتا بلکہ مسلمان ہی رہتا ہے!
اسرار احمد