:

بسم اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحیم



تقدیم


اسلام کے نظامِ تعلیم و تربیت میں خطبہ ٔجمعہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ نبی اکرمﷺ کے مقصد بعثت کی تکمیل یعنی ’’اظہار دین الحقّ علی الدّین کلہ‘‘ کے لیے جوحزب اللہ وجود میں آئی‘ اجتماعِ جمعہ دراصل اس کے ہفتہ وار اجتماع کی حیثیت رکھتا ہے اور اس پروگرام میں اصل اہمیت خطبہ ٔجمعہ کی ہے۔
                           خطبہ ٔجمعہ کی اہم ترین غرض و غایت تذکیر بالقرآن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم جہاں خود اپنے لیے ’’الذکر‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے وہاںخطبۂ جمعہ کو بھی ’’ذکر اللّٰہ‘‘ قرار دیتا ہے۔اور یہی حکمت ہے اس میں کہ رسول اللہﷺ جمعہ کی نماز میں بالعموم سورۃالاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے جن میں اسی ’’تذکیر‘‘ کا حکم نہایت شد و مد سے آیا ہے۔ یعنی {فَذَکِّرۡ اِنۡ نَّفَعَتِ الذِّکۡرٰی ؕ﴿۹﴾} (الاعلیٰ) اور {فَذَکِّرۡ ۟ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ ﴿ؕ۲۱﴾} (الغاشیۃ) رسول اللہﷺ کی جس حدیث میں جمعہ کے لیے جلد آنے کی فضیلت کے درجے بیان ہوئے ہیں اس کے آخر میں وارد ہونے والے الفاظ خطبہ ٔجمعہ کی اہمیت و فضیلت اور اس کی غرض و غایت کس قدر دوٹوک انداز میں بیان کر رہے ہیں:
((فَاِذَا خَرَجَ الْاِمَامُ طُوِیَتِ الصُّحُفُ وَرُفِعَتِ الْاَقْلَامُ وَاجْتَمَعَتِ الْمَلَائِکَۃُ عِنْدَ الْمِنْبَرِ یَسْتَمِعُوْنَ الذِّکْرَ‘ فَمَنْ جَائَ بَعْدَ ذٰلِکَ جَائَ لِحَقِّ الصَّلَاۃِ لَـیْسَ لَـہٗ مِنَ الْفَضْلِ شَیْ ئٌ)) (موطأ امام مالک)
’’پھر جب امام (خطبہ دینے کے لیے) نکلتا ہے تو (حاضری کے) رجسٹر لپیٹ دیے جاتے ہیں اور قلم اٹھا لیے جاتے ہیں اور فرشتے منبر کے پاس توجہ سے خطبہ سننے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں۔ تو جو شخص اس کے بعد آیا وہ صرف نماز اداکرنے کے لیے آیا ہے‘ (جمعہ کی) فضیلت میں سے اس کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے!‘‘
                        یہ بات واضح ہو جانے کے بعد کہ اجتماعِ جمعہ کی اصل فضیلت خطبہ کی وجہ سے ہے اور خطبہ کی اصل غرض و غایت ’’تذکیر‘‘ ہے‘ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ تذکیر کے ضمن میں