:

۰


تقریظ


از قلم : مولانا امین احسن اصلاحی
(تحریر کردہ:ستمبر ۱۹۷۶ئ)


                                                     یہ مقالہ ہمارے محترم دوست‘ پروفیسریوسف سلیم چشتی کی ایک غیر مطبوعہ کتاب کا ایک باب ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو میثاق کے صفحات میں شائع کیا گیا تو میثاق کے قارئین اور دوسرے علمی و مذہبی حلقوں میں نہایت پسند کیا گیا‘ یہاں تک کہ اس کے قدردانوں کے شدید اصرارپر اب اس کو کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔ پروفیسر صاحب موصوف کے متعلق یہ بات اس مقالہ کے پڑھنے والوں کے علم میں رہنی چاہیے کہ وہ تصوف کے مخالفوں میں سے نہیں بلکہ اس کے پرزور حامیوں میں ہیں۔ مذکورہ بالا کتاب‘ جس سے یہ مقالہ لیا گیا ہے ‘ تصوف کی حمایت اور اس کے مبادی و مقاصد کی وضاحت ہی میں موصوف نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے لکھی ہے۔ وہ خود ایک سلسلہ تصوف میں مرید‘ مزاجاً صوفی اور تصوف پسند ہیں۔ لیکن اس کوچہ کی عام روایت کے خلاف ان کے اندر دو باتیں قابل رشک بلکہ قابل تقلید ہیں۔ ایک یہ کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے‘ دوسری یہ کہ وہ وسعت مطالعہ کے ساتھ نہایت گہری تنقید کی صلاحیت کے بھی مالک ہیں اور یہ دونوں وصف بیک وقت کسی شخص‘ بالخصوص ایک صوفی مزاج شخص‘ میں مشکل ہی سے جمع ہوتے ہیں۔
                                                    میں خود اس مقالے سے غایت درجہ متاثر ہوا ہوں۔ اربابِ تصوف کی چیزیںپڑھتے ہوئے مجھے ہمیشہ ان کی کتاب و سنت سے ہٹی ہوئی باتوں سے وحشت ہوتی تھی۔ میں ان چیزوں کو خود تصوف کی خرابی پر محمول کرتا تھا‘ لیکن پروفیسر صاحب کے اس مقالہ سے مجھ پر پہلی مرتبہ یہ بات بدلائل واضح ہوئی کہ ہمارے تصوف میں بھی انہی چور دروازوں میں سے بہت