مقدّمـہ
اسلام کا انقلابی فکر
اور اس کا زوال
اسلام کے انقلابی فکر کو اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ ----- دین و دنیا اور مذہب وسیاست کو یکجا کر کے ان کے مجموعے پر اللہ کی حاکمیت یعنی کتاب اللہ اور سنت ِرسولﷺ کی غیر مشروط اور بلا استثناء بالادستی قائم کرنے کی جدو جہد میں تن من دھن کے ساتھ حصہ لیا جائے تاکہ دین حق کے غلبے کی صورت میں وہ نظامِ عدل اجتماعی قائم ہو جائے جو انسانی حریت‘ اخوت ا ور مساوات کے معتدل اور متوازن مجموعے کی حیثیت سے خلق کے لیے خالق کی رحمت وربوبیت اور عدل وقسط کا جامع اور کامل مظہر بن جائے ----- اور علامہ اقبال کے مندرجہ ذیل اشعار کے مطابق اس مقصد عظیم کے لیے تن من دھن لگا دینا‘ حتیٰ کہ ضرورت پڑنے پر جان دے دینا‘ دین حق کا لازمی تقاضا ہے ؎
مقامِ بندگی دیگر‘ مقامِ عاشقی دیگر
زنوری سجدہ می خواہی‘ زخاکی بیش ازاں خواہی
چناں خود رانگہداری کہ با ایں بے نیازی ہا!
شہادت بر وجودِ خود ز خونِ دوستاں خواہی
اور صرف ان عظیم ہستیوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جنہوں نے خواہ اس مقصد کے لیے کوئی عملی اقدام اور اجتماعی جدو جہد نہ کی ہو‘ لیکن اپنی پوری زندگی ایسی کسی جدو جہد کی تمہیدی اور ابتدائی مساعی میں صرف کر دی ہو‘ جیسے مثلاً شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور علامہ اقبال مرحوم‘