نہیں ہے‘ بلکہ دولت کی ریل پیل اور عمارتوں کی شان و شوکت یورپ ہی نہیں امریکہ کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہے ‘وہاں بھی ’’ذلت و مسکنت‘‘ کی یہ صورت بتمام و کمال موجود ہے کہ بین الاقوامی سطح پر نہ عزت ہے نہ وقار‘ اور خود داخلی سطح پر بھی حقیقی آزادی حاصل ہے نہ واقعی اختیار۔ چنانچہ ایک جانب ’’ذلت‘‘ کی انتہا یہ ہے کہ مغرب کے اخبارات وجرائد میں ان دولت مند ترین مسلمانوں کا تذکرہ بالعموم تمسخر اور استہزاء کے ساتھ ہوتا ہے‘ تو دوسری جانب ’’مسکنت‘‘ اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بھارت میں بابری مسجد کے گرائے جانے پر پچاس سے زائد نام نہاد مسلمان حکومتوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ جرأت نہیں ہوئی کہ بھارت کی حکومت سے یہ ہی کہہ سکتی کہ اگر مسجد فی الفور دوبارہ تعمیر نہ کی گئی تو ہم سفارتی یا اس سے بھی کم تر درجہ میں تجارتی تعلقات منقطع کر لیں گے۔ گویا عزت و وقار کے ساتھ ساتھ غیرتِ ملی کا جنازہ بھی نکل چکا ہے اور سوا ارب سے زیادہ افراد پر مشتمل عالمی ملت اسلامیہ اس وقت بالفعل ؏ ’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘
کا نقشہ پیش کر رہی ہے‘ تو سوچئے کہ الفاظِ قرآنی {ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ} یعنی ’’ان پر ذلّت اور مسکنت مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے‘‘ کے مصداق اِس وقت ہم نام نہاد مسلمان ہیں یا یہود؟
آگے بڑھنے سے قبل اس خیال کے تحت کہ مبادا مایوسی اور بددلی کے سائے زیادہ گہرے ہو جائیں‘ اور مبادا کسی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہو جائے کہ قرآن کے بیان میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہے‘ یہ حقیقت بیان کر دینی ضروری ہے کہ موجودہ صورتِ حال مستقل نہیں عارضی ہے ‘اور مستقبل میں بالکل برعکس ہو جائے گی۔ چنانچہ قرآن حکیم میں قوموں او راُمتوں کے عروج و زوال کے جو اصول اور عذابِ الٰہی کا جو فلسفہ بیان ہوا ہے اور اس پر مستزاد احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں قربِ قیامت کے جو حالات و واقعات اور یہودو نصاریٰ اور مسلمانوں کے مابین آخری آویزش اور معرکہ آرائی کے ضمن میں جو پیشین گوئیاں وارد ہوئی ہیں‘ ان کے مطابق یہود پر بہت جلد ’’عذابِ استیصال‘‘ یعنی جڑ سے اکھیڑ پھینکنے والا عذاب نازل ہو گا(اس اصطلاح کی