:


بسم الله الرحمن الرحيم

تقدیم
ڈاکٹر اسراراحمد


                              اس میں ہرگز کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ تاریخ انسانی کا جو عظیم ترین‘ ہمہ گیرترین اور صالح ترین انقلاب آج سے لگ بھگ چودہ سو سال قبل برپا ہوا تھا‘ اس کے اساسی و بنیادی عوامل دو ہی تھے ---- ایک اللہ کی کتاب قرآن حکیم اور دوسرے اس کے معلم نبی اکرمﷺ ----!!
                             ان دونوں کے مابین نسبت و تعلق کا معاملہ بڑا عجیب ہے‘ یعنی یہ کہ بظاہر یہ دونوں جدا جدا حقیقتیں ہیں لیکن بباطن ’’من تو شدم تو من شدی‘ من تن شدم تو جاں شدی!‘‘ کے مصدا ق ایک حقیقت ِواحدہ‘ یا زیادہ سے زیادہ یوں کہہ لیں کہ ایک ہی تصویر کے دو رخ یا ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں! چنانچہ خوا ہ یوں کہہ لیا جائے کہ ؎

’’اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اِک نسخہ کیمیا ساتھ لایا!‘‘


خواہ یہ کہ ع ’’قاری نظر آتا ہے ‘حقیقت میں ہے قرآن!‘‘ بات ایک ہی ہے!!
                             یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے سورۃ البیّنۃ میں : ’’اَلْبَیِّنَۃ‘‘ کی تشریح یوں کی کہ: {رَسُوۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتۡلُوۡا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً ۙ﴿۲﴾فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ؕ﴿۳﴾ }یعنی اللہ کے رسولﷺاور وہ انتہائی پاکیزہ صحیفے جن میں درج ہی وہ تحریریں ہیں جو صاف اور سیدھی بھی ہیں اور قائم و دائم بھی‘ دونوں مل کراس ’’البیّنہ‘‘ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں‘ جس کے بعد حق و باطل گڈمڈ نہیں رہ سکتے‘ باطل کو لازماً حق سے جدا ہونا پڑتا ہے!

___________________________
قرآنِ حکیم کے ساتھ راقم الحروف کے ربط و تعلق کی داستان یوں تو زیادہ طویل ہے اور