:

قوتیں جمع ہوکر حملہ کریں گی اور فلسطین میں عیسائی حکومت قائم ہو جائے گی۔ آپ نوٹ کیجئے پہلی صلیبی جنگیں دوسرے ملینیم کے آغاز میں شروع ہوئی تھیں۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ایک ہزار سال بعد پہلا ملینیم ختم ہو گیااور دوسرا ملینیم ۱۰۰۱ء سے شروع ہو گیا ۔ دوسرے ملینیم کے شروع میں صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا اور ۱۰۹۹ء میں انہوں نے بیت المقدس کو فتح کر لیا۔ اب ۲۰۰۱ء سے تیسرا ملینیم شروع ہوا ہے اور یہ آخری کروسیڈ ہو گا کہ یورپ کی رومن کیتھولک قوتیں فلسطین پر حملہ آور ہوں گی اور یہاں ایک رومن کیتھولک حکومت قائم کرنا چاہیں گی۔
(iii)تمام عیسائیوں کا مشترک ایجنڈا
                                                      اس ضمن میں ایک بات مزید نوٹ کر لیں کہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹس کا آپس میں خواہ کتنا ہی مذہبی اختلاف ہو ‘اور فرانس اور جرمنی کا سیاسی اور عسکری اعتبار سے امریکہ سے کتنا ہی اختلاف ہو ‘ایک چیز پر وہ متفق ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے پورے فلسطین کو مسلمانوں سے آزاد کرانا ہے اور دوسرے یہ کہ ان کے نزدیک مسلمانوں کے دماغ میں جو یہ خناس پیدا ہو گیا ہے کہ ہمارا ایک نظام ہے جس کو ہم قائم کریں گے‘ اس خناس کو واش آؤٹ کرنا ہے۔ اس پس منظر میں اب آپ ایک بات سوچئے! بہت اہم بات ہے۔ امریکی مفکرین کہتے ہیں:
".We are not against Islam, we are not going to war against Islam, we want a war within Islam"
                                                 اس کا کیا مطلب ہے ؟ درحقیقت اسلام دو ہیں۔ اسلام کا ایک مذہبی تصور ہے کہ مسلمان ایک خدا کو مانتے ہیں‘ اُس کی نماز پڑھتے ہیں‘ اُس کے حکم پر روزے رکھتے ہیں‘ اُس کے حکم کے مطابق حج و عمرہ کرتے ہیں‘ جن کو اللہ توفیق دے وہ زکوٰۃ بھی دیتے ہیں۔ ان کے کچھ عقائد ہیں ‘ کچھ تقاریب ہیں‘ عیدیں ہیں‘ یعنی عید الاضحی اور عید الفطر ۔ پھر ان کے کچھ سماجی رسوم و رواج ہیں۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو عقیقہ کرتے ہیں‘ شادی کرنی ہو تو نکاح ہوتا ہے اور کسی کے مر جانے پر اسے جلاتے نہیں بلکہ دفن کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ شراب نہیں پیتے‘ سور نہیں کھاتے۔ یہ مذہب ہے۔ جبکہ ایک اسلام ہے بطورِ