تقدیمنَحْمَدُہُ وَ نُصَلّیِ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمْ !
ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ علیہ ایک عظیم مفکر‘مدبر ‘مبشر ‘مصلح اور عبقری (Intellectual) شخصیت کے مالک تھے۔ موصوف کو بیسویں صدی عیسوی کے تحریر و تقریر اور بالخصوص درسِ قرآن کے میدان کا ’’مجدد‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ اسلام‘ پاکستان اور مسلمانوں کی متاعِ عزیز تھے۔ وہ ایک وسیع المطالعہ اورعقابی نظرکی حامل شخصیت تھے۔ انہوں نے جس انداز میں اپنی زندگی کا ایک مقصد متعین کیا اور پھر پوری استقامت اور عزیمت کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری زندگی بسر کی ‘وہ ہمارے لیے بہترین مثال ہے۔ وہ جدید و قدیم علوم پر گہری نظر رکھتے اور اپنی بات بڑے سلیقے سے کہنے کا ہنر جانتے تھے۔ انہوں نے پوری کوشش کی کہ دین کے جس جامع تصوّر کو وہ درست سمجھتے ہیں‘ اِسے لوگوں کے اذہان میں اتاریں اور اس کے مطابق ان کی تربیت کریں۔ اس لحاظ سے وہ بڑی ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسی عظیم مقصد کی نذر کردیا۔
ڈاکٹراسرار احمد رحمہ اللہ علیہ کی دینی خدمات کے کئی پہلو ہیں‘ اور ان کے فکر کی بے شمار جہتیں ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ کھلتی چلی جارہی ہیں۔ ان کی تمام جدّو جُہد‘ حرکت و عمل اور تنظیم و تحریک کامحور اور فکر کا منبع و ماخذ کل کا کل قرآن حکیم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی تفہیم کے لیے ان کی زبان کی گرہیں کھول دی تھیں‘ گویا قرآن کو ان کی زبان پر آسان کردیا تھا۔ ان کے دروس قرآن کی صدا آج بھی پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ بلاشبہ قرآن حکیم کے بیان میں ان کا کوئی ثانی اور مدّ ِمقابل نہ تھا۔
ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ علیہ کو اِس با ت کا بھی شعوری ادراک تھا کہ اُمّت ِمسلمہ کے زوال کی اصل وجہ قرآن حکیم سے دوری ہے۔ جب اُمّت نے قرآن کےپیغام کو فراموش کردیا تووہ فقہی‘ مسلکی اور فروعی مسائل میں الجھ کر رہ گئی۔ یو ں باہمی اختلافات کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی