:

خوبصورتی سے کی ہے وہ کہتے ہیں ؎


قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب !
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی!


یہ جو ہماری زندگی ہے یہ حباب کی مانند ہے، بڑی عارضی، بڑی فانی ، پانی کا بلبلہ، جو اَب پھٹا کہ اب پھٹا۔ بلبلے کی اس سے زیادہ اور کیا حیثیت ہے۔ اس حیاتِ دنیوی کی پائیداری پر کوئی اعتماد نہیں ہو سکتا کہ یہ کب تک رہے گی۔ لیکن جتنی دیر بھی یہ بلبلہ قائم رہے اس کی بھی ایک غرض و غایت ہے۔ وہ بھی عبث نہیں ہے۔ ذرا اس کائنات کی وسعتوں کا تصور کیجۓ ، جس کو علامہ مرحوم نے اس شعر میں قلزم سے تعبیر کیا ہے۔ پس یہ زندگی ایک آزمائش اور امتحان سے زیادہ کوئی حیثیت اور و قعت نہیں رکھتی


یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ ٔ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!



حیاتِ ابراہیمی ؑ: امتحان و آزمائش کی مثال ِ کامل
                                                      اس امتحان کی جو کامل و مکمل مثال قرآن مجید پیش کرتا ہے وہ حضرت ابراہیم(علیٰ نبینا و علیہ السلام) کی زندگی ہے۔ چنانچہ سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۲۴ کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے: {وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ } ’’اور یاد کرو کہ جب آزمایا ابراہیم کو اس کے رب نے بڑی بڑی باتو ں میں تو وہ ان سب میں پورا تر گیا‘‘ یہاں لفظ ابتلاء آگیا ۔ اس کے معنی ہیں کسی کو آزمانا ، امتحان و آزائش میں ڈالنا ----- یہاں لفظ ’’ بِکَلِمٰتٍ‘‘ میں تنوین تنکیر کے لیے آئی ہے ، یعنی اس نے اس کو نکرہ بنا دیا ہے،اور تنکیر عربی زبان میں تفخیم کے لیے یعنی کسی چیز کی عظمت و شان کو بیان کرنے کے لیے آتی ہے۔ چنانچہ ’’بِکَلِمٰتٍ‘‘ میں بڑے بڑے اور کٹھن امتحا نات کا مفہوم شامل ہو گیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے اس رب نے بڑے سخت اور مشکل امتحانات لیے ، لیکن اس اللہ کے بندے نے سب کو پورا کر دیکھایا۔ فَاَتَمَّہُنَّ اس کی قوّتِ ارادی میں کہیں ضعف و تا ٔمل پیدا نہیں ہوا ، اس کی عزیمت میں کمزوری اور تذبذب کے کہیں آثار ہو یدا نہیں ہوۓ۔