سُورۃُ الاَحزَاب
تمہیدی کلمات
سورۃ الاحزاب ۵ ہجری میں نازل ہوئی۔ جیسا کہ سورۃ النور ّکے تعارف کے ضمن میں بھی ذکر ہو چکا ہے‘ سورۃ الاحزاب اورسورۃ النور کاآپس میں جوڑے کا تعلق ہے۔ دونوں مدنی سورتیں ہیں اور مصحف میں ترتیب کے اعتبار سے ان دونوں میں ایک خاص مناسبت یہ بھی ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے گروپ کے آخر کی واحد مدنی سورت ہے۔ پچھلے گروپ کی چودہ مکی سورتوں (سورۂ یونس تا سورۃ المؤمنون) کے آخر میں سورۃ النور ہے جبکہ زیر مطالعہ گروپ کی آٹھ مکی سورتوں (سورۃ الفرقان تا سورۃ السجدۃ) کے آخر میں سورۃ الاحزاب ۔
سورۃ النور ۶ ہجری میں یعنی سورۃ الاحزاب کے ایک سال بعد نازل ہوئی اور یہی زمانی ترتیب ان دونوں سورتوں کے مضامین میں بھی نظر آتی ہے۔ مثلاًپردے سے متعلق ابتدائی احکام سورۃ الاحزاب میں ہیں۔ ان میں عورت کے لیے گھر سے باہر کے پردے اور دوسروں کے گھروں میں نا محرم َمردوں کے داخلے پر پابندی سے متعلق ہدایات شامل ہیں۔ لیکن گھر کے اندر رہتے ہوئے عورت کے لباس اور ستر سے متعلق احکام اور اس سلسلے میں محرم مردوں کے بارے میں تفصیلات سورۃ النور میں دی گئی ہیں۔ (گھر کے اندرونی ماحول میں عورتوں کے پردے سے متعلق احکام کا عکس کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے معاشرے میں عملی طور پر بھی نظر آتا تھا۔ گھروں کے مردانہ اور زنانہ حصے الگ الگ بنائے جاتے تھے۔ درمیان میں ڈیوڑھی ہوتی تھی جو دونوں حصوں کو آپس میں ملاتی تھی۔ مہمان اگر کوئی نا محرم مرد ہوتا تو وہ گھر کے اندر داخل ہونے کے بجائے مردانہ حصے میں ہی ٹھہرتاتھا‘جبکہ محرم افراد گھر کے اندر جا سکتے تھے)۔ اسی طرح سورۃ النور میں خلافت کے قیام کی خوشخبری دی گئی ہے‘ جبکہ خلافت کے قیام کی تمہیدی ِجدوجہد ُکے اہم موڑ (turning point) کی حیثیت سے غزوئہ احزاب کا ذکر سورۃ الاحزاب میں آیا ہے۔ سورۃ النور کی آیت ۳۵ اور سورۃ الاحزاب کی آیت ۳۵ کے مضامین کا باہمی ربط بھی ان دونوں سورتوں کی مشابہت کی نشاندہی کرتا ہے جس کا ذکر سورۃ النور کے مطالعہ کے دوران میں ہو چکا ہے۔
ابتدائی آیات میں مضامین کی ترتیب کے حوالے سے اس سورت کا اسلوب سورۃ التوبہ سے ملتا جلتا ہے۔ یہ دراصل قرآن کا ایک اہم اسلوب ہے جس کے تحت کسی اہم مضمون یا موضوع کو آیات کی ترتیب بدل کر اہم خبر (head line) کے طور پر پہلے بیان کر دیا جاتا ہے‘ جبکہ اس مضمون کی تفصیل بعد میں بیان کی جاتی ہے۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ سورۃ الانفال کا آغاز جس مضمون سے ہوا ہے اسے صرف ایک آیت کے بعد ہی چھوڑ دیا گیاہے ۔ بعد میں اس مضمون کی وضاحت سورت کے وسط (آیت ۴۱ )میں آئی ہے۔
بہر حال اس خصوصی اسلوب کے حوالے سے سورۃ التوبہ اور سورۃ الاحزاب میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ سورۃ التوبہ کا آغاز ایک بہت اہم اعلان اور مضمون سے ہوا ہے ‘لیکن اس کے بعد ترتیب میں دوسرے اور تیسرے رکوع کی وہ آیات آ گئی ہیں جو ایک سال قبل نازل ہوئی تھیں اور پھر ان آیات کے بعد پہلے رکوع کے مضمون کا سلسلہ چوتھے رکوع کے ساتھ جا کر ملتا ہے۔ بالکل اسی طرح سورۃ الاحزاب کے آغاز میں بھی ایک اہم مضمون کا ذکر آیا ہے لیکن چند ابتدائی آیات کے بعد یہ موضوع بدل گیا ہے۔ یہ اہم مضمون جس سے اس سورت کا آغاز ہوا ہے وہ حضورﷺ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے معاملے اورحضورﷺ کے ساتھ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہاکے نکاح سے متعلق ہے۔ لیکن ابتدائی آیات میں اس مضمون کی head line کے طور پر صرف منہ بولے بیٹے کی قانونی اور شرعی حیثیت کے بارے میں حکم دے کر اس موضوع کا سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔ اس کے بعد دوسرے اور تیسرے رکوع میں غزوۂ احزاب کا ذکر آ گیا ہے جبکہ پہلے رکوع کے مضمون کا ربط بعد میں چوتھے رکوع سے جا کر ملا ہے۔اعوذُ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
آیات ۱تا ۸
{یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ۙ﴿۱﴾وَّ اتَّبِعۡ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ۙ﴿۲﴾وَّ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا ﴿۳﴾مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ ۚ وَ مَا جَعَلَ اَزۡوَاجَکُمُ الِّٰٓیۡٔ تُظٰہِرُوۡنَ مِنۡہُنَّ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ وَ مَا جَعَلَ اَدۡعِیَآءَکُمۡ اَبۡنَآءَکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ قَوۡلُکُمۡ بِاَفۡوَاہِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَقُوۡلُ الۡحَقَّ وَ ہُوَ یَہۡدِی السَّبِیۡلَ ﴿۴﴾اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوَالِیۡکُمۡ ؕ وَ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ فِیۡمَاۤ اَخۡطَاۡتُمۡ بِہٖ ۙ وَ لٰکِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۵﴾اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ ؕ وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِکُمۡ مَّعۡرُوۡفًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا ﴿۶﴾وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ وَ مِنۡکَ وَ مِنۡ نُّوۡحٍ وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ۪ وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا ۙ﴿۷﴾لِّیَسۡـَٔلَ الصّٰدِقِیۡنَ عَنۡ صِدۡقِہِمۡ ۚ وَ اَعَدَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا اَلِیۡمًا ٪﴿۸﴾}
آیت ۱ {یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ؕ} ’’(اے نبیﷺ!) اللہ کا تقویٰ اختیار کیجیے اور کافرین و منافقین کی باتیں نہ مانیے۔‘‘جس طرح لفظ امرمیں ’’حکم‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’مشورہ‘‘ کے معنی بھی پائے جاتے ہیں‘اسی طرح ’’اطاعت‘‘ کے معنی حکم ماننے کے بھی ہیں اورکسی کی بات پر توجہ اور دھیان دینے کے بھی۔ چنانچہ یہاں وَلَا تُطِع کے الفاظ میں نبی مکرمﷺ کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ آپؐ ان لوگوں کی باتوں پر دھیان مت دیں۔
{اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ۙ﴿۱﴾} ’’یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا‘کمال حکمت والا ہے۔‘‘
آیت ۲ {وَّ اتَّبِعۡ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ } ’’اور آپؐ پیروی کیجیے اُس (ہدایت) کی جو آپؐ کی طرف وحی کی جا رہی ہے آپؐ کے رب کی جانب سے۔‘‘
{اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ۙ﴿۲﴾} ’’یقینا اللہ اُن سب باتوں سے باخبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘
آیت ۳ {وَّ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا ﴿۳﴾} ’’اور آپؐ اللہ پر توکل ّکیجیے۔ اوراللہ کافی ہے توکل کے لیے۔‘‘
یعنی آپؐ کو لوگوں کی طرف سے منفی پراپیگنڈے کا جو اندیشہ ہے اسے نظر انداز کردیجیے اور اللہ پر توکل اور بھروسہ کیجیے جس کا سہارا آپؐ کے لیے کافی ہے۔
آیت ۴ {مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ ۚ } ’’ اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دِل نہیں رکھے۔‘‘
جوف کے معنی خالی جگہ کے ہیں اور یہاں اس سے سینے کا اندرونی حصہ (chest cavity) مراد ہے جس کے بائیں جانب دل ہوتا ہے۔ یعنی ہر انسان کے سینے میں اللہ نے ایک ہی دل رکھا ہے۔ اوراگر محاورۃً یوں کہا جائے کہ فلاں اورفلاں کے دل یکجا ہو گئے ہیں یا فلاں کا دل فلاں کے دل سے مل گیا ہے تو محض اس طرح کہہ دینے سے کسی کے سینے کے اندر حقیقت میں دو دل نہیں ہو جاتے۔ چنانچہ جس طرح یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں بنائے‘اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی شخص کی دو مائیں نہیں ہوتیں۔کسی شخص کی ماں صرف وہی ہے جس نے اسے جنم دیا اور کسی انسان کا باپ صرف وہی ہے جس کے صلب سے وہ پیدا ہوا ۔
{وَ مَا جَعَلَ اَزۡوَاجَکُمُ الِّٰٓیۡٔ تُظٰہِرُوۡنَ مِنۡہُنَّ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ } ’’اور نہ اس نے تمہاری ان بیویوں کو تمہاری مائیں بنایا ہے جن سے تم ظہار کر بیٹھتے ہو۔‘‘
’’ظِھار‘‘ عرب کے دورِ جاہلیت کی ایک اصطلاح ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ناراض ہو کر کبھی یوں کہہ دیتا کہ اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّیْ (اب تو میرے اوپر اپنی ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہے) تو اب اسے طلاقِ مغلظ ّدر مغلظ شمار کیا جاتا اور اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی۔ یہاں اس خودساختہ تصور کی نفی کر دی گئی کہ تم میں سے کسی کے اپنی بیوی کو ماں کہہ دینے یا ماں کے ساتھ تشبیہہ دے دینے سے وہ اس کی ماں نہیں بن جاتی۔ ’’ظہار‘‘ کے بارے میں واضح احکام سورۃ المجادلہ (پارہ ۲۸)کی ابتدائی آیا ت میں دیے گئے ہیں۔
{وَ مَا جَعَلَ اَدۡعِیَآءَکُمۡ اَبۡنَآءَکُمۡ ؕ } ’’اور نہ ہی اس نے تمہارے ُمنہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے بنایا ہے۔‘‘
{ذٰلِکُمۡ قَوۡلُکُمۡ بِاَفۡوَاہِکُمۡ ؕ } ’’یہ سب تمہارے اپنے ُمنہ کی باتیں ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری ان خود ساختہ باتوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔ کسی کی ماں صرف وہی ہے جس نے اسے جنم دیا ہے اور کسی شخص کا بیٹا بھی صرف وہی ہے جو اس کے ُصلب سے پیدا ہوا۔ فقط کسی کے کہہ دینے سے کوئی عورت کسی کی ماں نہیں بن جاتی اور کسی کے زبانی دعویٰ سے کوئی کسی کا بیٹا نہیں بن جاتا۔
{وَ اللّٰہُ یَقُوۡلُ الۡحَقَّ وَ ہُوَ یَہۡدِی السَّبِیۡلَ ﴿۴﴾} ’’اور اللہ حق کہتا ہے اور وہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔‘‘
آیت ۵ {اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ } ’’(لہٰذا) انہیں پکارا کرو ان کے باپوں کی نسبت سے‘یہ زیادہ مبنی بر انصاف ہے اللہ کے نزدیک۔‘‘
اس واضح حکم کے بعد کسی کی ولدیت تبدیل کرنا حرامِ مطلق ہے۔ چنانچہ اس حکم کے بعد حضرت زید رضی اللہ عنہ کو زیدؓ بن محمدؐ کے بجائے زیدؓ بن حارثہ کہا جانے لگا۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگ کسی وجہ سے کسی کا بچہ لے کر پالتے ہیں تواس کی ولدیت کی جگہ اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب بڑے ہو کر بچے کو پتا چلے گا کہ وہ اس کے والدین نہیں تو اسے ذہنی طور پر شدید دھچکا لگے گا جو اس کے لیے بہت سے نفسیاتی مسائل کا باعث بنے گا۔ لیکن ایسا کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔
{فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوَالِیۡکُمۡ ؕ } ’’اور اگر تمہیں ان کے باپوں کے بارے میں پتا نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں۔‘‘
کسی وجہ سے یوں بھی ہو سکتا ہے کہ کسی بچے کی ولدیت کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ جیسے پاک بھارت تقسیم کے دوران اس طرح کے واقعات ہوئے کہ مہاجرین کی ایک ٹرین میں سب لوگ مارے گئے اورکوئی بچہ زندہ بچ گیا ۔ بعد میں کسی نے اس بچے کو پال لیا‘ لیکن اس کے والدین کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ ہو سکا۔
{وَ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ فِیۡمَاۤ اَخۡطَاۡتُمۡ بِہٖ ۙ } ’’اور اس معاملے میں تم سے جو خطا ہوئی ہے اُس پر تم سے کوئی مؤاخذہ نہیں‘‘
یعنی اس حکم سے پہلے اس سلسلے میں اگر تم سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اللہ کے ہاں اس کی پکڑ نہیں ہو گی۔
{وَ لٰکِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ } ’’لیکن تم لوگ جو کچھ اپنے دلوں کے ارادے سے کرو گے (اس کا ضرور احتساب ہو گا)۔‘‘
{وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۵﴾} ’’اور اللہ بہت بخشنے والا‘نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
آیت ۶ {اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ } ’’یقینا نبیؐ کاحق مؤمنوں پر خود اُن کی جانوں سے بھی زیادہ ہے‘‘ تمام اہل ِایمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی جانوں سے زیادہ حضورﷺ کی جان کی فکر کریں اور آپؐ کو اپنے ماں باپ‘ اپنی اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر محبوب رکھیں۔نبی اکرمﷺ کا یہ فرمان صحیحین میں ذرا سے لفظی فرق کے ساتھ نقل ہوا ہے:
((لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ)) (۱)
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اُس کو اُس کے باپ‘ اُس کی اولاد اور سب انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
{وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ ؕ } ’’اور نبی ؐ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔‘‘
یہاں پر اس فقرے سے پہلے ’’وَھُوَ اَبٌ لَّھُمْ‘‘ کے الفاظ کو محذوف سمجھا جانا چاہیے ‘یعنی حضورﷺ مؤمنوں کے لیے بمنزلہ باپ کے ہیں۔ اس سلسلے میں آپؐ کا فرمان بھی ہے کہ: ((اِنَّمَا اَنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ)) (۲) یعنی تم سب کے لیے میری حیثیت والد کی سی ہے ۔ قرآن مجید کے ان الفاظ کی رو سے نبی کریمﷺ کی بیویاں مسلمانوں کے لیے اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں قابل احترام ہیں۔ چنانچہ ازواجِ مطہراتؓ کے ناموں کے ساتھ ’’اُمّ المؤمنینؓ‘‘کے الفاظ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً اُمّ المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا‘ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا‘ اُمّ المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا‘ اُمّ المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا!
{وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ } ’’اوررحمی رشتے رکھنے والے‘ اللہ کی کتاب کے مطابق‘ مؤمنین و مہاجرین کی نسبت ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں‘‘
{اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِکُمۡ مَّعۡرُوۡفًا ؕ } ’’سوائے اس کے کہ تم لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی ُحسن ِسلوک کرنا چاہو۔‘‘
اس سے پہلے ’’اُولُوا الْاَرْحَامِ‘‘ کے بارے میں یہی الفاظ سورۃ الانفال کی آخری آیت میں بھی آچکے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کے قانون میں رحمی اور خونی رشتے دوسرے تمام رشتوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ یہاں پر مؤمنین و مہاجرین کا ذکر کر کے مدینہ کے مقامی معاشرے میں ایک مخصوص صورتِ حال کی بھی وضاحت کر دی گئی کہ اگر چہ تمہارے مہاجرین اور انصار کے درمیان ’’مؤاخات‘‘ کے تحت بے مثال رشتے قائم ہو چکے ہیں اور تم لوگوں نے ان رشتوں کے حوالے سے ایثار کی نئی نئی مثالیں بھی قائم کر کے دکھائی ہیں‘ لیکن اللہ کے قانونِ وراثت میں ایسے رشتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چنانچہ قانونِ وراثت میں نہ تو انصار و مہاجرین جیسے کسی بھائی چارے کا لحاظ ہو گا اور نہ ہی ُمنہ بولے رشتوں کے لیے کوئی حصہ مخصوص کیا جا ئے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنے تعلقات کی بنا پر کسی دینی بھائی‘عزیز یا دوست کو کوئی چیز تحفۃً دینا چاہے یا کسی کے حق میں کوئی چیزہبہ کرنا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔
{کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا ﴿۶﴾} ’’یہ سب باتیں (پہلے سے) کتاب میں لکھی ہوئی ہیں۔‘‘
کتاب میں لکھے ہوئے سے مراد لوحِ محفوظ یا اس موضوع پر تورات کے احکام بھی ہو سکتے ہیں اور خود قرآنی احکام بھی‘ جو اس سے پہلے سورۃ النساء اور سورۃ الانفال میں نازل ہو چکے تھے۔
آیت ۷ {وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ } ’’اور (یاد کرو) جب ہم نے ابنیاء سے ان کا عہد لیا تھا‘‘
’’میثاق النبیین‘‘کا ذکر اس سے پہلے سورۂ آل عمران کی آیت ۸۱ اور ۸۲ میں بھی آ چکا ہے۔
{وَ مِنۡکَ وَ مِنۡ نُّوۡحٍ وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ۪ } ’’اور آپؐ سے بھی‘اور نوحؑ ‘ ابراہیم‘ موسیٰؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم سے بھی۔‘‘
{وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا ۙ﴿۷﴾} ’’اور ان سب سے ہم نے بڑا گاڑھا قول و قرار لیا تھا۔‘‘
یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق ِتوجہ ہے کہ اگر کوئی شخص ارواح کے علیحدہ وجود کا منکر ہو اور یہ بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو کہ بنی نوع انسان کی تمام ارواح پہلے پیدا کر دی گئی تھیں تو اس کے لیے اس آیت میں مذکور میثاق کی توجیہہ کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ بہر حال قرآن میں واضح طور پر بتا یا گیا ہے کہ ارواح سے دو عہد لیے گئے۔ ان میں سے ایک عہد کا ذکر سورۃ الاعراف کی آیت ۱۷۲میں ہے ‘جسے ’’عہد ِالست ‘‘کہا جاتا ہے اور یہ عہد بلا تخصیص تمام انسانی ارواح سے لیا گیا تھا۔ دوسرے عہد کا ذکر آیت زیر مطالعہ اور سورۂ آل عمران کی آیت ۸۱ میں ہے جو صرف انبیاء کی ارواح سے اضافی طور پر لیا گیا تھا۔ اس عہد میں روحِ محمد(علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) بھی موجود تھی اور دوسرے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح بھی۔ جو لوگ ارواح کے علیحدہ وجود کو تسلیم نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ عہد کا یہ ذکر استعا راتی انداز میں ہوا ہے ۔ لیکن اگر ان کا یہ موقف تسلیم کر لیا جائے تو پھر قرآن کے تمام احکام ہی استعارہ بن کر رہ جائیں گے اورحقیقت ان استعاروں میں گم ہو جائے گی۔
آیت ۸ {لِّیَسۡـَٔلَ الصّٰدِقِیۡنَ عَنۡ صِدۡقِہِمۡ ۚ } ’’تا کہ اللہ پوچھ لے سچے لوگوں سے ان کے سچ کے بارے میں۔‘‘
یہاں اس فقرے کے بعد یہ الفاظ گویا محذوف ہیں: وَالْـکٰذِبِیْنَ عَنْ کِذْبِھِم (اور وہ جھوٹوں سے بھی پوچھ لے ان کے جھوٹ کے بارے میں!) تا کہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں سے ان کے عقائد و اعمال کے بارے میں اچھی طرح سے پوچھ گچھ کر لے۔
{وَ اَعَدَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا اَلِیۡمًا ٪﴿۸﴾} ’’اور اُس نے تیار کر رکھا ہے کافروں کے لیے ایک دردناک عذاب۔‘‘
پہلے رکوع کے اختتام پر اس مضمون کا سلسلہ عارضی طور پر منقطع کیا جا رہا ہے۔ یہاں پر تمہیداً ُمنہ بولے بیٹے کی قانونی حیثیت کو واضح کر دیا گیا اور حضورﷺ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپؐ کافرین و منافقین کی باتوں کی طرف بالکل دھیان نہ دیں اور ان کی طرف سے منفی پراپیگنڈے کے اندیشوں کو بالکل نظر انداز کر کے اللہ کے حکم پر عمل کریں --- اس مضمون کی مزید تفصیل چوتھے رکوع میں آئے گی۔_____________
(۱) صحیح البخاری‘کتاب الایمان‘ باب حب الرسول من الایمان۔ وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘باب وجوب محبۃ رسول اللہ ﷺ من اکثر من الاھل والولد والوالد۔
(۲) سنن ابی داوٗد‘ کتاب الطھارۃ‘ باب کراھیۃ استقبال القبلۃ عن قضاء الحاجۃ۔