:


عرضِ مرتب


بیان القرآن کے حصہ چہارم کی اشاعت پر ہم اللہ ربّ العزت کے حضور سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں۔ اس کام کی رفتار کے سلسلے میں مرتبین و مؤلفین دو طرفہ دباؤ میں ہیں۔ ایک طرف ’’جلالِ اسراری‘‘ کے فلک بوس گنبد سے گونجتی ہوئی ’’حُدی را تیز تر می خواں‘‘ کی صدائے پہ ہم ہے تو دوسری طرف ہزار ہا شائقین کے انتظار کا ہنگامہ آفریں مد و جزر! چنانچہ تمام متعلقین کے درمیان ایک خاموش سمجھوتہ آپ سے آپ طے پا گیا کہ ہر چہ باداباد، ہر سال رمضان المبارک میں بیان القرآن کی نئی جلد کی رُونمائی کا التزام کرنا ہی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ مرتّبین کی ٹیم کو توفیق، ہمت اور مہلت عطا فرمائے کہ وہ اس کام کو جلد از جلد پایۂ تکمیل تک پہنچا سکیں۔ آمین!
ڈاکٹر صاحب کے اپنے فرمان کے مطابق، قرآن کی تفسیر لکھنے کا کوئی منصوبہ کبھی بھی آپؒ کے حاشیۂ خیال میں نہیں تھا۔ لیکن جب مشیتِ ایزدی سے بیان القرآن کی پہلی جلد شائع ہوئی تو اُس کی غیر معمولی مقبولیت اور پذیرائی نے ڈاکٹر صاحبؒ کواس کے بقیہ کام کے بارے میں ایک خوشگوار اضطراب کی کیفیت سے دو چار کر دیا۔ دراصل ڈاکٹر صاحبؒ کے مشن اور اُس کی ترویج میں جو مرکزیت قرآن کریم کو حاصل ہے بعینہ وہی مرکزی اور امتیازی حیثیت انجمن اور تنظیم کی دیگر مطبوعات میں بیان القرآن رکھتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپؒ اِنذار و تبشیر اور تشویق و ترغیب کے اس قرآنی منبع کو جلد از جلد اُس کے شائقین کی پہنچ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ بہر حال ڈاکٹر صاحب کی یہ خواہش آپؒ کی دُنیوی زندگی میں مطلوبہ درجے میں اپنی تسکین حاصل نہ کر سکی!
ڈاکٹر صاحبؒ کے بقول جو ’’پہاڑ ایسا بھاری کام‘‘ باقی تھا،اب اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہم اپنی سی کوشش میں لگے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق سےاس میں کامیابی کے خواہاں بھی ہیں اور اُس کی رحمت سے ’’اجر‘‘ کے امید وار بھی! اس بارے میں ہم اپنے اللہ سے مثبت گمان رکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ تو ان شاء اللہ ہمارے گمان کے مطابق ہو ہی جائے گا!۔۔۔۔ مگر ایک ’’خلا‘‘ ہے کہ جس کا تصور مسلسل غمناک کیے جاتا ہے! اس ’’ہوم ورک‘‘ کے مکمل کرنے پر آخر ہمیں ایک خصوصی ’’شاباش‘‘ کا لالچ بھی تو تھا! ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے کیا بعید ہے کے ڈاکٹر صاحبؒ سے ملاقات کا ارمان بھی پُورا ہو اور یہ لالچ بھی!!!

لیفٹیننٹ کرنل(ر) عاشق حسین
جمعۃ المبارک
۲۲ شعبان المعظم ۱۴۳۳ھ
سُورۃ یُـونُس




تمہیدی کلما ت


سور ہ یونس کے آغاز کے ساتھ ہی قرآن حکیم کی تیسری منزل بھی شروع ہو رہی ہے اور یہیں سے مکی مدنی سورتوں کے تیسرے گروپ کا آغاز بھی ہو رہا ہے۔ اس لحاظ سے قرآن کا یہ مقام گویا ’’ قران السعدین ‘‘ ہے۔مکی سورتوں کا یہ سلسلہ جو سورۂ یونس سے شروع ہو کر سورۃ المؤمنون (اٹھارہویں پارہ) تک پھیلا ہوا ہے ‘حجم کے اعتبار سے طویل ترین ہے۔ (البتہ تیسویں پارے کی سورتیں چونکہ چھوٹی چھوٹی ہیں اس لیے تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ مکی سورتیں آخری گروپ میں ہیں۔) اس گروپ میں شامل سورۃ الحجر اور سورۃ الحج کے بارے میں بعض مفسرین کی رائے ہے کہ یہ دونوں مدنیات ہیں ‘مگر اس سلسلے میں مجھے اُن مفسرین ّسے اتفاق ہے جو ان دونوں کو مکیات مانتے ہیں۔
ان پہلے تین گروپس میں شامل سورتوں کی مکی اور مدنی تقسیم کے حوالے سے بات کی جائے تو جس طرح پہلے گروپ میں سورۃ البقرۃ سے لے کر سورۃ المائدۃ تک سوا چھ پاروں پر مشتمل چھ سورتیں مدنی تھیں‘ اسی طرح اب اس گروپ میں آئندہ سات پاروں پر مشتمل مسلسل چودہ سورتیں مکی ہیں‘ جب کہ درمیانی گروپ دو مکی (الانعام اور الاعراف) اور دو مدنی ( الانفال اور التوبہ) سورتوں پر مشتمل تھا۔
اس گرو پ کی ان چودہ سورتوں میں اکثر و بیشتر تین تین سورتوں کے ذیلی گروپ بھی بنتے ہیں‘ جن میں سے ہر گروپ کی پہلی دو سورتوں کے مابین نسبت ِزوجیت پائی جاتی ہے‘ جبکہ تیسری سورت منفرد ہے۔ پہلے ذیلی گروپ میں شامل تین سورتیں نسبتاً طویل ہیں‘ ان کے بعد تین نسبتاً چھوٹی سورتوں کا ایک ذیلی گروپ ہے اور اس کے بعد پھر تین سورتوں کا ایک ذیلی گروپ ہے جو قدرے طویل ہیں۔ پہلا ذیلی گروپ سورۂ یونس‘ سورۂ ہود اور سورۂ یوسف پر مشتمل ہے۔ ان میں سورۂ یونس اور سورۂ ہود کا آپس میں زوجیت کا بالکل ویساہی تعلق ہے جیسا کہ سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف میں ہے۔ چنانچہ سورۂ یونس کے گیارہ رکوعوں میں سے صرف دو رکوع انباء الرُّسل سے متعلق ہیں اور باقی نو رکوع
التذکیر بِآلاء اللّٰہ پر مشتمل ہیں‘ جبکہ دوسری طرف سورۂ ہود کے دس رکوعوں میں سے ساڑھے چھ رکوع انبا ء الرسل (التذکیر بایّام اللّٰہ) سے متعلق ہیں اور صرف ساڑھے تین رکوعوں میں دوسرے مضامین ہیں ‘جن میں کفار کے ساتھ ردّوقدح بھی ہے اور التذکیر بِآلاء اللّٰہ کا مضمون بھی ہے۔اس ذیلی گروپ میں سورۂ یوسف کی حیثیت گویا ایک ضمیمے کی ہے ‘ جو ان سے الگ اور بالکل منفرد ہے۔
سورۂ یونس اور سورۂ ہود میں زوجیت کے تعلق میں ایک عجیب متلازم
(reciprocal) نسبت بھی ہے کہ سورۂ یونس میں انباء الرسل کے دو رکوعوں میں سے صرف آدھے رکوع (چند آیات) میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہے اور باقی ڈیڑھ رکوع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے ‘ جبکہ درمیان کے کسی رسول کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کے بالکل برعکس سورۂ ہود میں پورے دو رکوع حضرت نوح علیہ السلام کے ذکر پر مشتمل ہیں۔ یہ مقام حضرت نوح علیہ السلام کے ذکر کے اعتبار سے پورے قرآن میں جامع ترین بھی ہے اور افضل بھی۔ (اگرچہ انتیسویں پارے میں سورۂ نوحؑ مکمل آپؑ ہی کے ذکر پر مشتمل ہے‘ مگر وہاں وہ تفاصیل نہیں ہیں جو یہاں پر ہیں۔) حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر اس سورت میں چند آیات میں صرف حوالے کے لیے ہی آیا ہے‘ جبکہ درمیان میں انبا ء الرسل کے سلسلے میں ایک ایک رکوع میں ایک ایک رسول ؑکا ذکر ہے ۔
اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم
 بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ 


   

آیات ۱ تا ۱۰


{الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱﴾اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی رَجُلٍ مِّنۡہُمۡ اَنۡ اَنۡذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنَّ لَہُمۡ قَدَمَ صِدۡقٍ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕؔ قَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۲﴾اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۳﴾اِلَیۡہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا ؕ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقًّا ؕ اِنَّہٗ یَبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ لِیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالۡقِسۡطِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَہُمۡ شَرَابٌ مِّنۡ حَمِیۡمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ ﴿۴﴾ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّ الۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ ؕ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالۡحَقِّ ۚ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ﴿۵﴾اِنَّ فِی اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَّقُوۡنَ ﴿۶﴾اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ اطۡمَاَنُّوۡا بِہَا وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوۡنَ ۙ﴿۷﴾اُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۸﴾اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَہۡدِیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِاِیۡمَانِہِمۡ ۚ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ فِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ ﴿۹﴾دَعۡوٰىہُمۡ فِیۡہَا سُبۡحٰنَکَ اللّٰہُمَّ وَ تَحِیَّتُہُمۡ فِیۡہَا سَلٰمٌ ۚ وَ اٰخِرُ دَعۡوٰىہُمۡ اَنِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿٪۱۰﴾


آیت ۱ {الٓرٰ ۟ } ’’ا ‘ل ‘ر۔ ‘‘
یہ حروفِ مقطعات ہیں۔ یہاں پر ایک قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ اس سے پہلے سورۃ البقرۃ ‘ سورۂ آل ِعمران اور سورۃ الاعراف تین سورتوں کا آغاز حروف ِمقطعات
(الٓـــمّٓ ‘ الٓـمّٓصٓ) سے ہوتاہے اور ان تینوں مقامات پر حروفِ مقطعات پر آیت مکمل ہوجاتی ہے‘ مگر یہاں ان حروف پر آیت مکمل نہیں ہورہی ہے ‘بلکہ یہ پہلی آیت کا حصہ ہیں۔ بہر حال یہ توقیفی امور (حضورﷺ کے بتانے پر موقوف) ہیں۔ گرائمر‘منطق‘نحو‘بیان وغیرہ کے کسی اصول یا قاعدے کویہاں دخل نہیں ہے۔
{تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱﴾ } ’’یہ بڑی حکمت بھری کتاب کی آیات ہیں۔‘‘
آیت ۲
{اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی رَجُلٍ مِّنۡہُمۡ} ’’کیا لوگوں کو بہت تعجب ہوا ہے کہ ہم نے وحی بھیج دی ایک شخص پر انہی میں سے‘‘
{اَنۡ اَنۡذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنَّ لَہُمۡ قَدَمَ صِدۡقٍ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕؔ } ’’کہ آپؐ لوگوں کو‘خبردار کر دیجیے اور اہل ایمان کو بشارت دے دیجیے کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بہت اونچا مرتبہ ہے۔ ‘‘
{قَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۲﴾} ’’(اس پر) کافروں نے کہا کہ یہ تو ایک کھلا جادوگر ہے۔‘‘
یعنی یہ تواللہ کی مرضی پر منحصر ہے ۔ اس کا فیصلہ ہے کہ وہ اس منصب کے لیے انسانوں میں سے جس کو چاہے پسند فرما کر منتخب کر لے۔اگرا س نے محمد ﷺکاانتخاب کر کے آپﷺ کو بذریعہ وحی انذار اورتبشیر کی خدمت پر مامور کیاہے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے!

آیت ۳
{اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍٍ} ’’یقینا تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی چھ دنوں میں‘‘
{ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ } ’’پھر وہ عرش پر متمکن ہو گیا ‘(اور) وہ تدبیر کرتا ہے ہر معاملہ کی۔‘‘
اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور منصوبہ بندی کے مطابق پوری کائنات کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ قبل ازیں بھی ذکر ہو چکا ہے کہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف
’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے باب ِاول میں اللہ تعالیٰ کے تین افعال کے بارے میں بڑی تفصیل سے بحث کی ہے:(۱) ابداع (creation ex nehilo) یعنی کسی چیز کو عدم محض سے وجود بخشنا ‘(۲)خلق ‘یعنی کسی چیز سے کوئی دوسری چیز بنانا ‘اور (۳)تدبیر‘یعنی اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق کائناتی نظام کی منصوبہ بندی (planning) فرمانا۔
{مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ ؕ} ’’نہیں ہے کوئی بھی شفاعت کرنے والا مگر اس کی اجازت
کے بعد۔‘‘
کوئی اُس کا اذن حاصل کیے بغیر اُس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کر سکتا۔ اس سے پہلے آیت الکرسی (سورۃ البقرۃ) میں بھی شفاعت کے بارے میں اسی نوعیت کا استثناء آچکاہے۔

{ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۳﴾} ’’وہ ہے اللہ تمہارا رب‘پس تم اسی کی بندگی کرو۔تو کیا تم نصیحت اخذ نہیں کرتے!‘‘
آیت ۴ {اِلَیۡہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا ؕ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقًّا ؕ} ’’تم سب کا لوٹنا اُسی کی جانب ہے۔یہ وعدہ ہے اللہ کا سچا۔‘‘
{اِنَّہٗ یَبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ} ’’وہی ہے جو خلق کا آغاز کرتا ہے ‘پھر وہی اس کا اعادہ کر دے گا‘‘
پہلے پہل کسی کام کا کرنا یا ابتدائی طور پر کسی چیز کوتخلیق کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ اس کا اعادہ کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ یہ ایک معقول اور منطقی بات ہے کہ اگرا للہ تعالیٰ ہی نے یہ سب کچھ پیدا فرمایا ہے اور پہلی بار اسے اس تخلیق میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی تو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے کیونکر مشکل ہو جائے گا! بہر حال وہ تمام انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا:

{لِیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالۡقِسۡطِ ؕ} ’’تا کہ وہ ان لوگوں کو جزا دے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے عمل کیے انصاف کے ساتھ۔‘‘
وہ اہل ِایمان جنہوں نے اللہ اور اُس کے دین کے لیے ایثارکیاہے‘ان کی قربانیوں اور مشقتوں کے بدلے میں انہیں انعامات سے نوازا جائے گا اور ان کے ان اعمال کی پوری پوری قدر کی جائے گی۔

{وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَہُمۡ شَرَابٌ مِّنۡ حَمِیۡمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ ﴿۴﴾} ’’اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے پینے کے لیے ہو گا کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ‘اس کفر کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے۔‘‘
آیت ۵ {ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّ الۡقَمَرَ نُوۡرًا} ’’وہی ہے جس نے بنایا سورج کو چمکدار اور چاند کو نور‘‘
یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ سورج کے اندر جاری احتراق یعنی جلنے
(combustion) کے عمل کی وجہ سے جو روشنی پیدا (generate) ہو رہی ہے اس کے لیے ’’ضیاء‘‘ جبکہ منعکس (reflect) ہو کر آنے والی روشنی کے لیے ’’نور‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ سورج اور چاند کی روشنی کے لیے قرآن حکیم نے دو مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں‘ اس لیے کہ سورج کی اپنی چمک ہے اور چاند کی روشنی ایک انعکاس ہے۔
{وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ ؕ} ’’اور اُس نے اس (چاند) کی منزلیں مقرر کر دیں تا کہ تمہیں معلوم ہو گنتی برسوں کی اور تم (معاملاتِ زندگی میں) حساب کر سکو۔‘‘


{مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالۡحَقِّ ۚ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ﴿۵﴾} ’’اللہ نے یہ سب کچھ پیدا نہیں کیا مگرحق کے ساتھ‘اور وہ تفصیل بیان کرتا ہے اپنی آیات کی ان لوگوں کے لیے جو علم حاصل کرنا چاہیں۔‘‘
یعنی یہ کائنات ایک بے مقصد تخلیق نہیں بلکہ ایک سنجیدہ ‘بامقصد اور نتیجہ خیز تخلیق ہے۔
آیت ۶ {اِنَّ فِی اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَّقُوۡنَ ﴿۶﴾} ’’یقینا رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں اور جو کچھ اللہ نے بنایا ہے آسمانوں میں اور زمین میں ‘یقینا نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جن کے اندر تقویٰ ہے۔‘‘
ان نشانیوں سے وہی لوگ سبق حاصل کرکے مستفیض ہو سکتے ہیں جن کے اندر خوفِ خدا ہے اوران کی اخلاقی حس بیدار ہوتی ہے۔
آیت ۷ {اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا} ’’بے شک وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کے امیدوار نہیں ہیں‘‘
یہاں پر یہ نکتہ نوٹ کریں کہ یہ الفاظ اس سورت میں باربار دہرائے جائیں گے۔ اصل میں یہ ایسی انسانی سوچ اور نفسیاتی کیفیت کی طرف اشارہ ہے جس کے مطابق انسانی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ انسان کو غور کرنا چاہیے کہ یہ انسانی زندگی جو ہم اس دنیا میں گزاررہے ہیں اس کی اصل حقیقت کیا ہے! اسے محاورۃً ’’چار دن کی زندگی‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ بہادر شاہ ظفر ؔنے بھی کہا ہے ؎

عمر ِدراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے ‘دو انتظار میں!
اگر انسان اس دُنیا میں طویل طبعی عمر بھی پائے تو اس کا ایک حصہ بچپن کی نا سمجھی اور کھیل کود میں ضائع ہو جاتا ہے۔ شعور اور جوانی کی عمر کا تھوڑا سا وقفہ اس کے لیے کار آمد ہوتا ہے۔ اس کے بعد جلد ہی بڑھاپا اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے {لِکَیۡ لَا یَعۡلَمَ بَعۡدَ عِلۡمٍ شَیۡئًا ؕ } (النحل :۷۰) کی جیتی جاگتی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ تو کیا انسانی زندگی کی حقیقت بس یہی ہے؟ اور کیا اتنی سی زندگی کے لیے ہی انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب دیا جاتا ہے؟ انسان غور کرے تو اس پر یہ حقیقت واضح ہوگی کہ انسانی زندگی محض ہمارے سامنے کے چند ماہ وسال کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کا نام ہے ۔ علامہ اقبالؔ کے بقول: ؎
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں ‘پیہم دواں‘ہر دم جواں ہے زندگی
اور اقبالؔ ہی نے اس سلسلے میں انسانی نا سمجھی اور کم ظرفی کی طرف ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے: ؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں بھی ہے!
اس لامتناہی سلسلۂ زندگی میں سے ایک انتہائی مختصر اور عارضی وقفہ یہ دُنیوی زندگی ہے جو اللہ نے انسان کو آزمانے اور جانچنے کے لیے عطا کی ہے: {الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ} (الملک:۲)۔ جبکہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور وہ بہت طویل ہے۔ جیسے سورۃ العنکبوت میں فرمایا: {وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾} ’’اور یقینا آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے ‘ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا!‘‘ مگر وہ لوگ جن کا ذہنی اُفق تنگ اور سوچ محدود ہے ‘وہ اسی عارضی اور مختصر وقفہ ٔزندگی کو اصل زندگی سمجھ کر اس کی رعنائیوں پر فریفتہ اور اس کی رنگینیوں میں گم رہتے ہیں۔ بقولِ علامہ اقبال ؔ: 


کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق!

اصل اور دائمی زندگی کی عظمت اور حقیقت ایسے لوگوں کی نظر وںسے بالکل اوجھل ہو چکی ہے۔

{وَ رَضُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ اطۡمَاَنُّوۡا بِہَا وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوۡنَ ۙ﴿۷﴾} ’’اور وہ دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور اسی پر مطمئن ہیں‘اور جو ہماری آیات سے غافل ہیں۔‘‘
انسانوں کے اندر اور باہر اللہ کی بے شمار نشانیاں موجود ہیں اور ان کی فطرت انہیں بار بار دعوتِ فکر بھی دیتی ہے: ؎

کھول آنکھ ‘زمیں دیکھ ‘فلک دیکھ‘فضا دیکھ!
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرادیکھ!

مگر وہ لوگ شہواتِ نفسانی کے چکروں میں اس حدتک غلطاں و پیچاں ہیں کہ انہیں آنکھ کھول کر انفس و آفاق میں بکھری ہوئی ان لاتعداد آیاتِ الٰہی کو ایک نظر دیکھنے کی فرصت ہے نہ توفیق۔

آیت ۸
{اُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۸﴾} ’’یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ آگ ہے‘اپنی اس کمائی کے سبب جو وہ کر رہے ہیں۔‘‘
جس شخص نے اپنی پوری دُنیوی زندگی میں نہ اللہ کی طرف رجوع کیا اور نہ آخرت ہی کی کچھ فکر کی ‘ ساری عمر ’بابر بہ عیش کو ش کہ عالم دوبارہ نیست‘ جیسے نعرے کو اپنا ماٹو بنائے رکھا‘حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی قیود سے بے نیاز ہو کر جھوٹی مسرتیں اور عارضی خوشیاں جہاں سے ملیں‘جس قیمت پر ملیں حاصل کر لیں‘تو ایسے شخص کا آخری ٹھکانہ آگ کے سوا بھلا اور کہاں ہو سکتا ہے!

آیت ۹
{اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَہۡدِیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِاِیۡمَانِہِمۡ ۚ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ فِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ ﴿۹﴾} ’’یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے‘ان کارب ان کے ایمان کے باعث ان کوپہنچا دے گا نعمتوں والے باغات میں ‘جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔‘‘
آیت ۱۰
{دَعۡوٰىہُمۡ فِیۡہَا سُبۡحٰنَکَ اللّٰہُمَّ} ’’ اس میں ان کا ترانہ ہو گا: اے اللہ تو ُپاک ہے‘‘
وہ لوگ جنت کے اندر بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح و مناجات کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار‘ تو ہر ضعف سے پاک ہے‘ہر عیب اورہر نقص سے مبرا ہے اور احتیاج کے ہر تصور سے ارفع و اعلیٰ ہے۔

{وَ تَحِیَّتُہُمۡ فِیۡہَا سَلٰمٌ ۚ} ’’اور اس میں ان کی (آپس کی )دعا ’سلام‘ ہو گی۔‘‘
اہل ِجنت آپس میں ایک دوسرے کو ملتے ہوئے السلام علیکم کے الفاظ کہیں گے‘اس طرح وہاں ہر طرف سے سلام‘سلام کی آوازیں آ رہیں ہو ں گی۔ جیسے سورۃ الواقعہ میں فرمایا:
{لَا یَسۡمَعُوۡنَ فِیۡہَا لَغۡوًا وَّ لَا تَاۡثِیۡمًا ﴿ۙ۲۵﴾ اِلَّا قِیۡلًا سَلٰمًا سَلٰمًا ﴿۲۶﴾} ’’وہاں نہ بے ہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ۔ وہاں ان کا کلام سلام سلام ہو گا۔‘‘
{وَ اٰخِرُ دَعۡوٰىہُمۡ اَنِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿٪۱۰﴾} ’’اور ان کی دعا اور مناجات کا اختتام (ہمیشہ ان کلمات پر ) ہو گاکہ ُکل حمداور کل تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔‘‘