:

 سُورۃُ مَریَم

تمہیدی کلمات


سورۂ مریم ’’مکی مدنی ‘‘سورتوں کے تیسرے گروپ میں شامل ہے۔ اس گروپ کی مکیات کا آغاز سورۂ یونس سے ہوا تھا۔ ان میں سے جن نو سورتوں کا ہم اب تک مطالعہ کر چکے ہیں وہ تین تین کے تینذیلی گروپس میں منقسم ہیں۔ ہر ذیلی گروپ کے اندر دو دو سورتیں جوڑے کی شکل میں ہیں‘ جبکہ تیسری سورت منفرد مزاج کی حامل ہے۔ مثلاًپہلے ذیلی گروپ میں سورئہ یونس اور سورۂ ہود جوڑے کی حیثیت سے ہیں‘ جبکہ سورۂ یوسف (ایک ہی نبی یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات پر مشتمل) منفرد ہے۔ دوسرے ذیلی گروپ میں سورۃ الرعد اور سورۂ ابراہیم جوڑے کی شکل میں ہیں‘ جبکہ سورۃ الحجر منفرد ہے‘ بلکہ سورۃ الحجر تو اس پورے گروپ میں ہی منفرد مزاج کی سورت ہے۔ اس کا اندازبالکل ابتدائی زمانے کی سورتوں جیساہے‘ یعنی چھوٹی چھوٹی آیات‘ تیزردھم اور ملکوتی غنائیت بہت نمایاں۔ تیسرے ذیلی گروپ میں سورۃ النحل منفرد مزاج رکھتی ہے ‘ جبکہ سورۂ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف ایک حسین و جمیل جوڑے کی شکل میں ہیں ۔
اب سورۂ مریم سے ’’مکی مدنی ‘‘ سورتوں کے اس بڑے گروپ کے چوتھے ذیلی گروپ کا آغاز ہو رہا ہے ‘ جس میں سورۂ مریم ‘ سورۂ طٰہٰ اور سورۃ الانبیاء شامل ہیں۔ پچھلے ذیلی گروپس کی طرح یہاں بھی دو سورتوں (سورۂ مریم اور سورۃ الانبیاء) کی آپس میں گہری مشابہت ہے ‘جبکہ ایک سورت (طٰہٰ) منفرد ہے۔ سورۂ مریم اور سورۃ الانبیاء دونوں میں انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ قصص النبیین کے انداز میں ہے۔ ان تذکروں میں ’’انباء الرسل‘‘ یا ’’ایام اللہ‘‘ جیسا وہ انداز نہیں جو ہم سورۃ الاعراف اور سورئہ ہود میں ملاحظہ کر چکے ہیں کہ رسول آئے ‘انہوں نے دعوت دی ‘قوم نے انکار کیا اور وہ قوم ہلاک کر دی گئی۔
اس ذیلی گروپ کی منفرد سورت یعنی سورۂ طٰہٰ میں سورۂ یوسف کی طرح صرف ایک ہی رسول کا تذکرہ ہے۔ اس کے آٹھ میں سے پانچ رکوع مسلسل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات پر مشتمل ہیں ۔ اس لحاظ سے سورۂ طٰہٰ سورۂ یوسف کے ساتھ معنوی نسبت بھی رکھتی ہے۔ یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر میں آکر آباد ہوئے (اس کا ذکر سورۂ یوسف میں ہے) ‘جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں انہیں فرعون کی غلامی سے نجات ملی (اس کا ذکر سورۂ طٰہٰ میں ہے )اوروہ اپنے آبائی وطن فلسطین کی طرف روانہ ہوئے۔
سورۂ مریم ہجرت ِحبشہ سے قبل نازل ہوئی۔ اس کے دوسرے رکوع میں حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا تعارف بیان فرمایا گیا ہے ۔ یہ آیات مسلمان مہاجرین کو سفر ِحبشہ کے زادِ راہ کے طور پر عطا ہوئی تھیں۔ عنقریب 
انہیں شاہِ حبشہ ّ(نجاشی) کے دربار میں پیش آنے والی مشکل صورتِ حال میں ان آیات کی مدد درکار تھی۔حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو واپس لانے کے لیے ِقریش مکہ ّنے عمروبن العاص (جوبعد میں ایمان لا کر جلیل القدر صحابی بنے رضی اللہ عنہ) کی سرکردگی میں نجاشی کے دربار میں ایک سفار ت بھیجی۔ ان لوگوں کی شکایت پر نجاشی نے مسلمانوں کو دربار میں بلا کر ان سے حقیقت حال دریافت کی۔ مسلمانوں نے جواب میں وہ تمام حالات بتائے جن کی وجہ سے وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر حبشہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ نجاشی نے مسلمانوں کا موقف سننے کے بعد انہیں قریش کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں اجازت دے دی کہ وہ اس کے ملک میں جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد عمروبن العاص نے ایک اور داؤ کھیلااور نجاشی کے دربار میں دوبارہ حاضر ہو کر کہا کہ آپ ان لوگوں کو بلا کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کا عقیدہ دریافت کریں۔ یہ لوگ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک عام انسان سمجھتے ہیں ۔ اس پر نجاشی نے مسلمانوں کو ایک بار پھر اپنے دربار میں طلب کیا اور ان سے پوچھا کہ حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا ہے۔ اس پر حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ بن ابی طالب (حضورﷺکے چچا زاد اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی) نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق سورۂ مریم کی آیات پڑھ کر سنائیں۔ کلامِ الٰہی سن کر نجاشی بہت متاثر ہوا۔ اُس نے ایک تنکا اٹھایا اور کہا کہ جو کچھ تم نے بیان کیا ہے حقیقت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس تنکے کے برابر بھی اس سے زائد نہیں ہیں۔ اس کے بعد اُس نے قریش کی سفارت کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ میں ان لوگوں کو تمہارے حوالے نہیں کرسکتا ‘چاہے تم لوگ مجھے پہاڑوں کے برابر سونا بھی دے دو۔ 


اعوذُ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ



آیات ۱تا ۱۵


{کٓہٰیٰعٓصٓ ۟﴿ۚ۱﴾ذِکۡرُ رَحۡمَتِ رَبِّکَ عَبۡدَہٗ زَکَرِیَّا ۖ﴿ۚ۲﴾اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا ﴿۳﴾ قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ وَہَنَ الۡعَظۡمُ مِنِّیۡ وَ اشۡتَعَلَ الرَّاۡسُ شَیۡبًا وَّ لَمۡ اَکُنۡۢ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا ﴿۴﴾وَ اِنِّیۡ خِفۡتُ الۡمَوَالِیَ مِنۡ وَّرَآءِیۡ وَ کَانَتِ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرًا فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۙ﴿۵﴾یَّرِثُنِیۡ وَ یَرِثُ مِنۡ اٰلِ یَعۡقُوۡبَ ٭ۖ وَ اجۡعَلۡہُ رَبِّ رَضِیًّا ﴿۶﴾یٰزَکَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِۣ اسۡمُہٗ یَحۡیٰی ۙ لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا ﴿۷﴾قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ کَانَتِ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرًا وَّ قَدۡ بَلَغۡتُ مِنَ الۡکِبَرِ عِتِیًّا ﴿۸﴾قَالَ کَذٰلِکَ ۚ قَالَ رَبُّکَ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ وَّ قَدۡ خَلَقۡتُکَ مِنۡ قَبۡلُ وَ لَمۡ تَکُ شَیۡئًا ﴿۹﴾قَالَ رَبِّ اجۡعَلۡ لِّیۡۤ اٰیَۃً ؕ قَالَ اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا ﴿۱۰﴾فَخَرَجَ عَلٰی قَوۡمِہٖ مِنَ الۡمِحۡرَابِ فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ اَنۡ سَبِّحُوۡا بُکۡرَۃً وَّ عَشِیًّا ﴿۱۱﴾یٰیَحۡیٰی خُذِ الۡکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ ؕ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحُکۡمَ صَبِیًّا ﴿ۙ۱۲﴾وَّ حَنَانًا مِّنۡ لَّدُنَّا وَ زَکٰوۃً ؕ وَ کَانَ تَقِیًّا ﴿ۙ۱۳﴾وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیۡہِ وَ لَمۡ یَکُنۡ جَبَّارًا عَصِیًّا ﴿۱۴﴾وَ سَلٰمٌ عَلَیۡہِ یَوۡمَ وُلِدَ وَ یَوۡمَ یَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ یُبۡعَثُ حَیًّا ﴿٪۱۵﴾}
آیت ۱
{کٓہٰیٰعٓصٓ ۟﴿ۚ۱﴾} ’’ک ‘ ہ‘ ی ‘ ع ‘ ص ۔‘‘
قرآن مجید کی یہ واحد سورت ہے جس کے آغاز میں اکٹھے پانچ حروفِ مقطعات ہیں۔ اگرچہ سورۃ الشوریٰ کے شروع میں بھی پانچ حروفِ مقطعات ہیں‘ لیکن وہاں یہ دو آیات میں ہیں۔ دو حروف
{حٰمٓ ۚ﴿۱﴾} پہلی آیت میں ‘جبکہ تین حروف {عٓسٓقٓ ﴿۲﴾} دوسری آیت میں ہیں ۔ بہر حال سورئہ مریم کو اس لحاظ سے انفرادیت حاصل ہے کہ اس کے آغاز میں اکٹھے پانچ حروف ِ مقطعات آئے ہیں۔
آیت ۲
{ذِکۡرُ رَحۡمَتِ رَبِّکَ عَبۡدَہٗ زَکَرِیَّا ۖ﴿ۚ۲﴾} ’’یہ ذکر ہے آپؐ کے رب کی رحمت کا جو اُس نے اپنے بندے زکریاؑ پر کی۔‘‘
یہاں ذکر تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کرنا مقصود ہے مگر آپؑ کے ذکر سے پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا ذکر کیا جا رہا ہے‘ کیونکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت بھی تو ایک بہت بڑا معجزہ تھی۔ حضرت زکریا علیہ السلام بہت بوڑھے ہو چکے تھے اور آپؑ کی اہلیہ بھی نہ صرف بوڑھی تھیں بلکہ عمر بھر بانجھ بھی رہی تھیں۔ ان حالات میں ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش کوئی معمول کا واقعہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کو یہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت ِخاص کا مظہر قرار دیا گیا ہے۔

آیت ۳
{اِاِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا ﴿۳﴾} ’’جب اُس نے پکارا اپنے رب کو چپکے چپکے۔‘‘
یعنی حضرت زکریا علیہ السلام نے دل ہی دل میں اپنے رب سے دعا کی۔

آیت ۴
{قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ وَہَنَ الۡعَظۡمُ مِنِّیۡ } ’’اُس نے عرض کیا : اے میرے پروردگار! بلا شبہ میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں‘‘
{ وَ اشۡتَعَلَ الرَّاۡسُ شَیۡبًا} ’’اور میرا سر بھڑک اُٹھا ہے بڑھاپے سے‘‘
یعنی بڑھاپے کے سبب میرے سر کے بال مکمل طور پر سفید ہو گئے ہیں۔

{وَّ لَمۡ اَکُنۡۢ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا ﴿۴﴾} ’’اور اے میرے پروردگار !میں تجھے پکار کر کبھی بھی نامراد نہیں رہا۔‘‘
چنانچہ آج میں بڑی ہمت کر کے تجھ سے ایک بہت ہی غیر معمولی دعا کر نے جا رہا ہوں۔ دُنیوی حالات اور طبیعی قوانین کے اعتبار سے توایسا ہونا ممکن نہیں ‘مگر تو چاہے تو نا ممکن بھی ممکن ہو جاتاہے۔

آیت ۵
{وَ اِنِّیۡ خِفۡتُ الۡمَوَالِیَ مِنۡ وَّرَآءِیۡ} ’’اور مجھے اندیشہ ہے اپنے بھائی بندوں سے اپنے بعد‘‘
مجھے اپنے ورثاء میں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو میرے بعد ہیکل ِسلیمانی کا متولی اور میرا جانشین بننے کی
صلاحیت رکھتا ہو۔
{وَ کَانَتِ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرًا فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۙ﴿۵﴾} ’’اور میری بیوی بانجھ ہے ‘ تو ُتومجھے خاص اپنے پاس سے ایک ولی عطا کر۔‘‘
یہاں ’’ولی‘‘ لفظ بہت اہم ہے ‘یعنی مجھے ایسا ساتھی عطا کر جو میرے مشن میں میرا دوست و بازو بن سکے۔

آیت ۶
{یَّرِثُنِیۡ وَ یَرِثُ مِنۡ اٰلِ یَعۡقُوۡبَ ٭ۖ} ’’جو وارث ہو میرا اور آلِ یعقوب کا‘‘
مجھے ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہے جو میری دینی و روحانی وراثت کو سنبھال سکے ‘ اور میری وراثت کیا!یہ تو آلِ یعقوبؑ کی وراثت ہے۔ اس مقدس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے مجھے ایک ایسا وارث عطا کر جو واقعی اس منصب کا اہل ہو۔

{وَ اجۡعَلۡہُ رَبِّ رَضِیًّا ﴿۶﴾} ’’اور اے میرے پروردگار! اس کو بنائیو پسندیدہ۔‘‘
رَضِیّ فعیل کے وزن پر ہے ‘ چنانچہ ا س میں راضی (وہ جو راضی ہو) اور مرضِیّ (جس کو راضی کر دیا گیا ہو) دونوں کیفیتوں کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جیسے سورۃ البینہ (آیت ۸) میں فرمایا گیا : {رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ} کہ اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے۔ اسی طرح سورۃ الفجر میں نفس ِمطمئنہ کے حوالے سے فرمایا گیا : {ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾} ’’تو لوٹ جا اپنے پروردگار کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے راضی‘ وہ تجھ سے راضی‘‘ ---- اس دعا کے جواب میں حضرت زکریا علیہ السلام کو بشارت دی گئی :
آیت ۷
{یٰزَکَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِۣ اسۡمُہٗ یَحۡیٰی ۙ لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا ﴿۷﴾} ’’اے زکریا ؑ! ہم تمہیں بشارت دیتے ہیں ایک لڑکے کی جس کا نام یحییٰ ہو گا‘ ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی ہم نام نہیں بنایا۔‘‘
اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی نظیر نہیں بنایا‘ یعنی اس جیسی صفات کسی میں پیدا نہیں کیں۔

آیت ۸
{قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ} ’’اُس نے کہا: اے میرے پروردگار !میرے ہاں بیٹا کیسے ہو جائے گا‘‘
یہ وہی بات ہے جو حضرت زکریا علیہ السلام کے حوالے سے ہم سورۂ آل عمران (آیت ۴۰) میں بھی پڑھ چکے ہیں۔

{وَّ کَانَتِ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرًا وَّ قَدۡ بَلَغۡتُ مِنَ الۡکِبَرِ عِتِیًّا ﴿۸﴾} ’’جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں پہنچ چکا ہوں بڑھاپے کے باعث سوکھ جانے کی حالت کو!‘‘
یعنی بڑھاپے کی وجہ سے میرے جسم میں حیات کے سارے سوتے خشک ہوچکے ہیں ۔

آیت ۹
{قَالَ کَذٰلِکَ ۚ قَالَ رَبُّکَ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ} ’’فرمایا: ایسے ہی ہو گا! تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ مجھ پر آسان ہے ‘‘
{وَّ قَدۡ خَلَقۡتُکَ مِنۡ قَبۡلُ وَ لَمۡ تَکُ شَیۡئًا ﴿۹﴾} ’’ اور تمہیں بھی تو میں نے پیدا کیا اس سے پہلے جبکہ تم کچھ بھی نہیں تھے۔‘‘
آیت ۱۰
{قَالَ رَبِّ اجۡعَلۡ لِّیۡۤ اٰیَۃً ؕ} ’’عرض کیا: اے میرے پروردگار! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرمادے۔‘‘
{قَالَ اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا ﴿۱۰﴾} ’’فرمایا: تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم گفتگو نہیں کر سکو گے لوگوں سے تین راتیں متواتر۔‘‘
گویا بطور نشانی اللہ تعالیٰ نے تین دنوں تک حضرت زکریا علیہ السلام کی قوتِ گویائی سلب کر لی۔ سورئہ آلِ عمران (آیت ۴۱) میں اس مضمو ن کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
{قَالَ اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمۡزًا ؕ} یعنی آپؑ تین دن تک لوگوں سے گفتگو نہیں کر سکو گے مگر اشاروں کنایوں میں۔
آیت ۱۱
{فَخَرَجَ عَلٰی قَوۡمِہٖ مِنَ الۡمِحۡرَابِ} ’’پھر وہ حجرے سے نکل کر اپنی قوم کی طرف آیا‘‘
اپنی عبادت‘ رازو نیاز اور مناجات کے بعد حضرت زکریا علیہ السلام اپنے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے لوگوں کی طرف آئے۔

{فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ اَنۡ سَبِّحُوۡا بُکۡرَۃً وَّ عَشِیًّا ﴿۱۱﴾} ’’اور انہیں اشارے سے کہا کہ تم لوگ تسبیح بیان کرو صبح وشام۔‘‘
آپؑ نے لوگوں کو اشاروں کنایوں سے سمجھایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت اہم فیصلہ ہونے جا رہا ہے‘ لہٰذا تم لوگ صبح وشام کثرت سے اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے رہو۔ عربی میں ’’وحی‘‘ کے لغوی معنی ہیں :
الاعلام بالسِّر والخِفائ ‘یعنی کسی کو اشارے سے کوئی بات اس طرح بتانا کہ دوسروں کو پتا نہ چلے۔ انبیاء ورسل علیہم السلام کی طرف جو وحی آتی ہے اس کی کیفیت بھی یہی ہوتی ہے۔ وحی کی مختلف صورتوں کا تذکرہ (بیان القرآن‘ جلد اول کے آغاز میں) ’’تعارفِ قرآن‘‘کے ضمن میں آ چکا ہے۔ آگے سورۃ الشوریٰ میں بھی اس کا ذکر آئے گا۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کے بعد اب ان کو براہِ راست مخاطب کیا جا رہا ہے:

آیت ۱۲
{یٰیَحۡیٰی خُذِ الۡکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ ؕ } ’’اے یحییٰ کتاب کو مضبوطی سے تھام لو!‘‘
کتاب سے مراد یہاں زبور‘ تورات اور دیگر صحائف ہیں جو اُس وقت بنی اسرائیل کے درمیان موجود تھے۔

{وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحُکۡمَ صَبِیًّا ﴿ۙ۱۲﴾} ’’اور ہم نے اُس کو عطا کر دی حکمت و دانائی بچپن ہی میں ۔‘‘
اب حضرت یحییٰ علیہ السلام کے خصوصی اوصاف بیان کیے جا رہے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام
(John the Baptist and Jesus of Nazarat) دونوں ایسی غیر معمولی شخصیات ہیں کہ ان جیسے اوصاف دوسرے انبیاء و رسل علیہم السلام میں بھی نہیں پائے گئے۔چنانچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بچپن ہی میں حکمت عطا کر دی گئی۔
آیت ۱۳ {وَّ حَنَانًا مِّنۡ لَّدُنَّا وَ زَکٰوۃً ؕ وَ کَانَ تَقِیًّا ﴿ۙ۱۳﴾} ’’اور ہماری طرف سے سوزو گداز والی محبت اور پاکیزگی (اُسے عطا ہوئی) اور وہ بہت متقی تھا ۔‘‘
آیت ۱۴
{وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیۡہِ وَ لَمۡ یَکُنۡ جَبَّارًا عَصِیًّا ﴿۱۴﴾} ’’اور وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا تھا‘اور خود سر و نافرمان نہیں تھا۔‘‘
یہ اوصاف اللہ تعالیٰ کی خصوصی عطا کے طور پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ُگھٹی ّمیں ڈال دیے گئے۔

آیت ۱۵
{وَ سَلٰمٌ عَلَیۡہِ یَوۡمَ وُلِدَ وَ یَوۡمَ یَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ یُبۡعَثُ حَیًّا ﴿٪۱۵﴾} ’’اور سلام اُس پر جس دن اُس کی ولادت ہوئی‘ جس دن اُسے موت آئے اور جس دن وہ اٹھایا جائے زندہ کر کے۔‘‘
یہاں پر حضرت زکریا اورحضرت یحییٰ علیہما السلام کا قصہ اختتام کو پہنچا اور اب آگے حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔