:

ماہنامہ میثاق کے اداریوں میں بھی اِن موضوعات پر خوب بحث کی گئی۔ سانحہ مشرقی پاکستان سے چند ماہ پہلے جب مغربی پاکستان میں بنگال کے باغیوں کو بزور بازو کچل دینے کے نعرے بلند ہو رہے تھے، میثاق کے صفحات حکمرانوں اور سیاستدانوں سے پرزور اپیل کر رہے تھے کہ تنازعہ کو سیاسی سطح پر اور مذاکرات سے مل کیا جانا چاہیے۔ یہ سیاسی بصیرت اور دور بینی بھی اللہ رب العزت نے قرآن کے طفیل عطا کی۔ اس پس منظر میں بصائر کے نام سے ڈاکٹر اسرار احمد کے اخباری کالموں کا یہ منتخب مجموعہ پڑھنا ایک قاری کے لیے بہت مفید ثابت ہو گا۔ اکثر تجزیہ نگار اور کالم نویس تحریر کرتے وقت چاہے حکمرانوں اور مقتدر قوتوں پر کتنی ہی تنقید کریں لیکن عوامی رحجان کا اثر لازماً قبول کرتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اُن غلط رسومات کی بھی ڈٹ کر مخالفت کی جو عوامی سطح پر پختہ ہو کر ایمان اور عقیدہ کی صورت اختیار کر چکی تھیں۔بصائر کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک قاری کو محسوس ہو گا کہ تبصرہ کتنا بے لاگ ہے اور حالات و واقعات کا تجزیہ ایسے کیا ہے جیسے کوئی ماہر سرجن آپریشن کر رہا ہو۔بصائر کے مطالعہ سے قاری یقینا حیرت میں ڈوب جائے گا کہ منبر ومحراب کے آدمی کا وژن اتنا وسیع ہے اور بین الاقوامی صورتحال پر نظر اتنی گہری ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا پاکستان سے وہی تعلق ہے جو بچے کا آغوش مادر سے ہوتا ہے لیکن میٹھی باتوں اور جھوٹی تسلیوں کی بجائے اُن کے قلم نے ہمیشہ حق اور سچ اُگلا جو بعض سب ’’اچھا‘‘ قسم کے لوگوں نے ناپسند کیا اور اِن کالموں کے خلاف شدید ردِ عمل کا اظہار کیا۔ بصائر کے مطالعہ سے اقبال کا یہ مصرعہ سمجھنے میں بڑی سہولت ہو گی کہ ؏

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی 


                            زیر نظر کتاب کی تیاری کے تمام مراحل میں عزیزم وسیم احمد (نائب ناظم شعبہ نشرواشاعت) کی محنت اور دلچسپی لائق تحسین ہے۔ امید ہے یہ کتاب دین کے اہم مباحث کی تفہیم کی غرض سے دعوتی مقاصد کے لیے بہت مفید ہو گی۔


ایوب بیگ مرزا
ناظم نشرواشاعت