کہ گھوڑا بھوک پیاس برداشت نہ کرے اور جی ہار دے۔ اس طرح تو سوار کی جان شدید خطرہ میں پڑ جائے گی اور اسے توز ندگی کے لالے پڑ جائیں گے۔ مزید یہ کہ عرب اس طور پر گھوڑوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر موسم گرما اور لُو کی حالت میں انہیں لے کر میدان میں جا کھڑے ہوتے تھے۔ وہ اپنی حفاظت کے لئے اپنے سروں پر ڈھاٹے باندھ کر اور جسم پر کپڑے وغیرہ لپیٹ کر ان گھوڑوں کی پیٹہ پر سوار رہتے تھے اور ان گھوڑوں کا مُنہ سیدھا لُو اور بادِ صرصر کے تھپیڑوں کی طرف رکھتے تھے ‘تا کہ ان کے اندر بھوک پیاس کے ساتھ لُو کے اُن تھپیڑوں کو برداشت کرنے کی عادت پڑ جائے اورکسی ڈاکے کی مہم یا قبائلی جنگ کے موقع پر گھوڑا سوار کے قابو میں رہے اور بھوک پیاس یا بادِ صر صر کے تھپیڑوں کو برداشت کر کے سوار کی مرضی کے مطابق مطلوبہ ُرخ برقرار رکھے اور اس سے مُنہ نہ پھیرے۔ تو عرب اپنے گھوڑوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر جو مشقت کراتے تھے اور جس پر وہ صوم کا لفظ یعنی روزہ کا اطلاق کرتے تھے‘ اس مشق کے متعلق گویا اب ﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنے گھوڑوں کو تم جو روزہ رکھواتے ہو‘ وہ تم خود بھی رکھو۔ تم پر بھی یہ فرض کر دیا گیا ۔ ساتھ ہی فرمایا: {کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ} ’’تم سے پہلے جو اُمتیں تھیں‘ جیسے ان پر روزہ فرض کیا گیا تھا ویسے ہی تم پر بھی فرض کیا گیا ہے ‘‘۔ چونکہ عرب کے لوگ روزے کے عادی نہیں تھے تو پہلی بات سمجھانے کے انداز میں فرمائی گئی کہ یہ تمہارے لئے نیا حکم ‘کوئی نئی مشقت نہیں ہے۔ یہ حکم پہلی اُمتوں کو بھی مل چکا ہے۔ ﷲ تعالیٰ کا یہ فرمانا فرضیت کے لحاظ سے ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ تعداد‘ زمانہ اور آداب و شرائط کے اعتبار سے نہیں ہو سکتا ‘چونکہ یہ بات ہم کو معلوم ہے کہ شریعتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصّلوٰ ۃ والسّلام اور سابقہ انبیاء ورُسل کی شرائع میں فرق رہا ہے۔
روزے کا مقصود---حصولِ تقویٰ
دوسری بات یہ سمجھائی گئی کہ تمہیں اس مشقت و تکلیف میں ڈال کر ﷲ تعالیٰ کو کوئی مسرت حاصل نہیں ہوتی‘ معاذ ﷲ! اس میں تمہارے لئے مصلحت ہے۔ اور وہ کیا ہے! {لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ } ’’تا کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو جائے‘‘۔ گویا روزے کی مصلحت ہے