:

یُنْتَقَصَ مِنْ اَجْرِہٖ شَیْ ءٌ)) ’’بغیر اس کے کہ اس(افطار کرنے والے روزے دار )کے اجر میں سے کوئی بھی کمی کی جائے‘‘۔آپ حضرات کو معلوم ہوگا کہ حضرت سلمان فارسی ؓ ان فقراء صحابہ کرام ؓمیں سے تھے جن کے پاس اموال و اسبابِ دُ نیوی نہ ہونے کے برابر تھے اور جن پر عام دنوں میں بھی فاقے پڑتے تھے ۔ان اصحابؓ کو اتنی مقدرت کہاں حاصل تھی کہ وہ کسی روزہ دار کو افطار کراسکتے ۔ چنانچہ اسی حدیث شریف میں آگے آتا ہے کہ: قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَیْسَ کُلُّنَا یَجِدُ مَا یُفَطِّرُ بِہِ الصَّائِمَ ’’ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ !ہم میں سے ہر ایک کو تور وزہ دار کا روزہ افطار کرانے کی استطاعت نہیں ہے(تو کیاہم اس اجر و ثواب سے محروم رہیں گے)؟‘‘ حضرت سلمان فارسیؓ کی اس بات پر حضور ﷺ نے جو جواب ارشاد فرمایا اسے حضرت سلمان فارسیؓ آگے بیان کرتے ہیں کہ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : ((یُعْطِی اللّٰہُ ھٰذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلیٰ مَذْقَۃِ لَبَنٍ اَوْ شُرْبَۃٍ مِنْ مَاء)) ’’تو رسول اللہﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’یہ ثواب اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی عطا فرمائے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی پر یا صرف پانی کے ایک گھونٹ ہی پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے گا‘‘۔
                                                  یہاں یہ بات سمجھ لیجئے کہ ہمارے یہاں اس دَور میں کھانے پینے کی اشیاء کی جوافراط ہے اُس وقت اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔اُس وقت اگر فقراء صحابہ کرام ؓ میں سے کسی کو افطارکے لئے کہیں سے کچھ دودھ مل جاتاتھا تو وہ اس میں پانی ملا کر لسّی بنالیا کرتے تھے ۔ اور کوئی رفیق ایسا بھی ہو جسے یہ بھی میسر نہیں تو اگر وہ اسے اس لسّی میں شریک کرلے تو اُس وقت کے حالات میں یہ بھی بہت بڑا ایثار تھا ۔ ہم کو آج کھانے پینے کی جو فراوانی ہے اس کے پیش نظر ہم حضورﷺ کے اس ارشاد ِمبارک کی حکمت کو صحیح طور پر سمجھ ہی نہیں سکتے ۔ یہ اُس دَور کی بات ہے جب کہ اُن فقراء صحابہ کرام ؓ پر کئی کئی دن کے فاقے پڑتے تھے ۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میرا یہ حال ہوتا تھا کہ کئی کئی دن کے فاقے سے مجھ پر غشی طاری ہو جاتی تھی ‘ لوگ یہ سمجھتے