علامہ اقبال کے بارے میں یہ بات سب جانتے ہیں کہ وہ ایک عظیم قومی و ملی شاعر اور بلند پایہ فلسفی و حکیم ہی نہیں تھے ‘ مفکر و مصورِ پاکستان بھی تھے۔ وہ برعظیم پاک و ہند میں بسنے والے مسلمانوں کو انگریز کی غلامی اور ہندو کے تسلط سے نجات دلانے اور سیاسی و معاشی میدان میں ان کے بہتر مستقبل کے بارے میں ہی فکر مند نہیں رہتے تھے‘اُمت ِمسلمہ کی عظمت و سطوتِ گزشتہ کی بازیافت اور احیائِ اسلام کے شدت کے ساتھ آرزومند بھی تھے۔
علامہ کے بارے میں یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں کہ علامہ نے پاکستان کا محض تصور اور تخیل ہی پیش نہیں کیا‘پاکستان کے قیام کا مطالبہ لے کر اٹھنے والی مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت ‘ مسلم لیگ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی اور ایک فعال کارکن اورایک صاحب فہم اور مدبر رہنما کے طور پر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کی آزادی کی جنگ میں بھر پور حصہ لیا۔ علامہ کی حیات کا یہ گوشہ ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ لیکن یہ بات بہت ہی کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ اپنی حیات ِدنیوی کے آخری حصے میں حضرت علامہ ’’ـمسلمانوں کے عروج واقبال‘‘ اور’’ اعلائِ کلمتہ اللہ‘‘ کی خاطر خالص اسلامی اصولوں یعنی بیعت کی بنیاد پر قائم ہونے والی ایک ایسی انقلابی جماعت کی تشکیل کی سرتوڑکوشش بھی کرتے رہے جو محض نام کے مسلمانوں پر نہیں بلکہ ’’فداکاروں‘‘ پر مشتمل ہو۔ علامہ اپنی کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے‘ لیکن تشکیل جماعت کے بالکل آخری مرحلے پر پہنچ کر بعض وجوہات کی بنا پر ‘جن کا ذکر آگے قدرے تفصیل سے آئے گا‘ یہ معاملہ ُرک گیا اور یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔ حیاتِ اقبال کا یہ گم شدہ اور فراموش کردہ ورق حال ہی میں ڈاکٹر برہان احمد فاروقی مرحوم کی ایک کتاب ’’علامہ اقبال اور مسلمانوں کا سیاسی نصب العین‘‘ کے ذریعے منظر عام پرآیاہے۔ اس اہم تاریخی دستاویز کو آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگریس نے دسمبر ۱۹۹۴ء میں ‘ یعنی ڈاکٹر فاروقی مرحوم کے انتقال سے چند ماہ قبل شائع کیا۔ ہمارا احساس ہے کہ حیاتِ اقبال کے اس اہم گوشے کی