مولف کا جماعت اسلامی کی رکنیت سے استعفاء
(اپریل ۱۹۵۷ء)
ذیل کی سطور ۲۹؍ رمضان المبارک کو مسجد میں اعتکاف کی حالت میں لکھ رہا ہوں اور ان کے ذریعے اُس فیصلے کا اظہار مقصود ہے جس پر میں حالت اعتکاف میں مسلسل تین روز کے سوچ و بچار کے بعد پہنچا ہوں‘ یعنی یہ کہ میں جماعت اسلامی کی رکنیت سے مستعفی ہو جاؤں۔
۱۵؍ نومبر ۵۴ء کو جب میں نے جماعت کی رکنیت کے لیے درخواست تحریر کی تو جماعت کے بارے میں میرا نقطہ ٔ نظر یہ تھا:
’’میں یہ محسوس کرتا ہوں اور آج سے نہیں بلکہ آج سے چار سال قبل سے محسوس کر رہا ہوں کہ اقامت دین میرا فرض ہے۔ اور خدا کا شکر ہے کہ میں اس دَور میں پیدا ہوا جبکہ خالصتاً اقامت دین کے کام کے لیے جماعت اسلامی قائم ہو چکی ہے اور میں آسانی کے ساتھ اس میں شریک ہو کر اپنے فرض سے عہدہ بر آہ ہونے کے لیے سعی کر سکتا ہوں۔ اس لحاظ سے میں جماعت اسلامی کے وجود کو اپنے لیے ایک نعمت متصور کرتا ہوں۔ اس لیے کہ اگر یہ نہ ہوتی تو خود کام کرنا بہر حال بس میں نہ ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں باز پُرس کڑی ہو جاتی … ‘‘ اور
’’… میں یہ سمجھتا ہوں کہ پوری دنیا میں خالص تحریک اسلامی محض جماعت اسلامی ہے (پاکستان کی بھی اور ہندوستان کی بھی) البتہ دینی مقاصد کے لیے اور اچھے کام کرنے والے اور ادارے بھی ہیں اور جماعتیں بھی ہیں۔ پاکستان میں بھی اور باقی