اجتماع ماچھی گوٹھ کے بعد
ماچھی گوٹھ سے واپسی کے بعد کے دو ماہ راقم الحروف پر شدید ذہنی کشمکش اور روحانی کرب کے عالم میں گزرے۔ اور ان کے دوران راقم ایک سہ گونہ عقدۂ لاینحل (Three Dimensional Dilemma) گتھیوں کو سلجھانے میں سرگردان رہا۔ چنانچہ:
(۱) ایک جانب جماعت اسلامی کے قیام کا مقصد اور اُس کا نصب العین‘ اُس کا پیش کردہ تصورِ دین‘ اور اس کا ایک عرصے کے بعد از سر نو واضح کردہ تصور فرائض دینی ایسے اہم اور اساسی امور تھے جن کی حقانیت مجھ پر دن بدن واضح سے واضح تر ہوتی چلی گئی تھی۔ تا آنکہ اُس وقت تک بحمد اللہ میری رسائی قرآن حکیم کے علم و حکمت کے اُن گوشوں تک براہ راست ہو چکی تھی جن سے یہ امور ماخوذ اور مستنبط تھے! لہٰذا اپنی دینی ذمہ داریوں سے گریز اور فرائض دینی کی ادائیگی سے فرار کی جملہ راہیں راقم کے لیے مسدود ہو چکی تھیں۔ گویا راقم کا حال فیضؔ کے اس شعر کے مطابق تھا کہ ؎
جزدار اگر کوئی مفر ہو تو بتاؤ
ناچار گنہگار سوئے دار چلے ہیں!
(۲) دوسری طرف جماعت اسلامی کی پوری قیادت سے شدید مایوسی کی کیفیت تھی جو اجتماع ماچھی گوٹھ کے باعث شدید تر ہی نہیں وسیع تر بھی ہو گئی تھی۔ اس لیے کہ اب یہ کیفیت صرف مولانا مودودی اور اُن کے ہم نوا لوگوں کے بارے ہی میں نہیں تھی‘ مولانا اصلاحی اور اُن کے ہم خیال حضرات کے بارے میں بھی تھی ----- بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ماچھی گوٹھ کے اجتماع کے بعد اس ضمن میں مؤخر الذکر کا پلڑا بھاری ہو چکا تھا۔
اس سلسلے میں اپنے شدتِ احساس کے اظہار کے لیے اُس واقعے کے بیا ن میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ماچھی گوٹھ کے اجتماع سے فراغت کے فوراً بعد صادق آباد میں سردار محمد اجمل خان لغاری سے ملاقات ہوئی تو گفتگو کے دوران میری مایوسی اور دل شکستگی ان الفاظ کا