:


اجتماعِ ارکان 


                                            ڈاکٹر عثمانی صاحب کا نعرۂ حق …… اجتماعِ ارکان کی پہلی نشست کا آغاز ہوا ہی تھا کہ کراچی کے درویش منش رکن ڈاکٹر سید مسعود الدین حسن عثمانی دہائی دیتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ سب سے پہلے انہیں اس کا موقع دیا جائے کہ وہ اپنی اس تحریر کو پڑھ کر سنا دیں جو انہوں نے قائم مقام امیر جماعت کے توسط سے مرکزی مجلس شوریٰ کو ارسال کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی جرأتِ ایمانی کا مظاہرہ کچھ ایسے طریقے سے ہوا کہ منتظمین اجتماع نے بے چوں و چرا ان کو اپنی تحریر پڑھ کر سنانے کی اجازت دے دی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس تحریر میں مرکزی مجلس شوریٰ کے وسط جنوری کے اجلاس کے بعض فیصلوں سے شدید اختلاف کیا اور زیر انعقاد اجتماعِ ارکان کے سلسلے میں کچھ تجاویز پیش کیں‘ ساتھ ہی قیم جماعت کے اس بیان پر شدید تنقید کی جو انہوں نے سعید ملک صاحب کے بیان کے جواب میں دیا تھا اور مولانا مودودی کے اس اقدام کے سلسلے میں وضاحت طلب کی جو انہوں نے ارکانِ جائزہ کمیٹی کے خلاف کیا تھا۔
                                     ڈاکٹر صاحب کا موقف یہ تھا کہ یہ طریقہ کہ امیر جماعت‘ جماعت کے آج تک کے اختیار کردہ طریق کار کی پوری تاریخ بیان کریں اور آئندہ کی پالیسی کے بارے میں ایک قرار داد پیش کریں ----- جماعت کی سابقہ روایات کے بالکل خلاف ہے اور موجود حالات میں اس سے بد گمانی اور سوء ظن کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ اس کے برعکس ہونا یہ چاہیے کہ شوریٰ نومبر دسمبر ۵۶ء کی متفقہ قرار داد ہی کو اس اجتماع ارکان میں استصواب کے لیے پیش کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ میں:
                                     ’’اس زمانے میں جب کہ شیطان نے ہمارے داخلی استحکام کو منہدم کرنے کے لئے بھر پور حملہ کیا تھا اور جب کہ شیطان کو یہ موقع پوری طرح مل گیا تھا کہ وہ جماعت میں اعتماد اور حسن ظن کی فضا کو مسموم کر دے، اس امر کی سخت ضرورت تھی کہ جماعت کے ہونے والے کُل پاکستان اجتماع میں مسائل اور معاملات پیش کرنے کے لیے