باب چہارم
مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کے استعفے
مصالحت کی نئی کوشش اور راقم الحروف کا موقف
مولانا مودودی کا استعفاء اس از امارتِ جماعت … اپنے اس خط میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے جائزہ کمیٹی اور اس کی رپورٹ پر مولانا مودودی کے الزامات کی قلعی کھولنے اور جائزہ کمیٹی کے تقرر سے لے کر شوریٰ کے اختتام تک مولانا کے طرز عمل کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ -----اس امکان کے پیش نظر کہ عین ممکن ہے کہ مولانا نے شوریٰ میں واقعی صدق دل کے ساتھ ’مصالحت‘ کی ہو لیکن بعد میں ان پر اس کے نقصانات واضح ہوئے ہوں ----- جماعت کے دستور کی روسے یہ صاف اور سیدھی راہ کھول کر بیان کر دی کہ آپ مجلس شوریٰ کا اجلاس دوبارہ بلائیں اور اس میں اپنا نقطہ ٔ نظر پوری وضاحت سے رکھ دیں۔ پھر اگر شوریٰ آپ کے نقطہ ٔ نظر کو قبول کر لے تو فبہا‘ ورنہ آپ شوریٰ کے خلاف اپنا مقدمہ ارکانِ جماعت کے سامنے پیش کر دیں۔
لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بالفرض اجلاسِ شوریٰ کے دوران مولانا مودودی کسی ذہنی کشمکش اور تذبذب میں مبتلا رہے بھی تھے تو اب بہر حال وہ ایک واضح اور متعین لائحہ عمل اختیار کر چکے تھے اور جائزہ کمیٹی کے نام ’’الزام نامہ‘‘ انہوں نے کسی غلطی یا چوک کی بنا پر نہیں بلکہ ایک مستقل فیصلہ کر کے تحریر کیا تھا ----- چنانچہ مولانا اصلاحی صاحب کا خط ملنے پر انہوں نے فوری طور پر یہ فیصلہ کر لیا کہ منطق اور دلیل ----- اور قاعدے اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر سیدھی طرح اپنی ’شخصیت‘ کا زور آزما لیا جائے اور دلائل و براہین کے