:

باب دوم

مولانا اصلاحی کا جوابی حملہ اور جائزہ کمیٹی کا دفاع 


                              ارکان جائزہ کمیٹی کے نام مولانا مودودی صاحب کا یہ ’’الزام نامہ‘‘ نہ صرف ’’جمہوریت‘‘ اور ’’شورائیت‘‘ اور عدل و انصاف بلکہ ----- راست معاملگی (FAIR DEALING) تک کی نفی کامل تھا۔ اس کے بین السطور سے مولانا موصوف کی جو ذہنی کیفیت سامنے آتی ہے اور ان کا جو طرز عمل ظاہر ہوتا ہے وہ شاید اس بدنامِ زمانہ ماہر علم سیاسیات کی روح کے لیے تو موجب مسرت و شادمانی ہوا ہو جسے دنیا میکیا ویلی کے نام سے یاد کرتی ہے۔ باقی جس کے علم میں بھی یہ ’’حکم نامہ‘‘ آیا وہ حیران و پریشان اور ششدر و مبہوت ہوکر رہ گیا ----- ! ارکان جائزہ کمیٹی کے لیے تو یہ اتنی شدید ذہنی و روحانی کرب و اذیت کا موجب تھا ہی جس سے وہ ایک صدمے کی سی حالت سے دوچار ہو گئے --------
                          ----- خود مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے علم میں جب یہ آیا تو ان پر سکتہ طاری ہو گیا اور خود ان کی اس زمانے کی بیان کی ہوئی تفصیل کے مطابق، ان کا یہ حال ہو گیا کہ جیسے ایک دم ہاتھ پیر جواب دے گئے ہوں۔ تقریباً سولہ سترہ سال جس جماعت کے لیے اپنی صلاحیتوں اور اوقاتِ عزیز کا اکثر و بیشتر حصہ صرف کیا تھا اچانک اس کا یہ انجام نگاہوں کے سامنے آیا کہ جیسے یہ اب منتشر ہوا چاہتی ہے اور ایک شخص کی زخم خوردہ انا، طیش میں، اس کے شیرازے کو منتشر کرنے پر تُل گئی ہے۔ مولانا اُن دنوں فرمایا کرتے تھے کہ بار بار خیال آتا تھا کہ جاؤں اور مولانا مودودی کو سمجھاؤں کہ وہ اس اقدام سے باز آ جائیں، پھر سوچتا تھا کہ ان کی اس تحریر کے بعد اصلاح کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ مولانا کے اپنے الفاظ میں: