:


دیباچہ 


                                         ’نقض غزل‘ کا عنوان سورۂ نحل کی آیت نمبر ۹۲ سے ماخوذ ہے جس میں ایک ایسی حواس باختہ بڑھیا کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو محنت و مشقت جھیل کر سوت کاتتی ہے، اور پھر خود ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے گویا اپنے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی تاریخ میں بھی ۵۷- ۱۹۵۶ء میں ایک ایسا ہی موقع آیا تھا، جب مولانا مودودی مرحوم نے اپنے بعض غلط اقدامات سے ایسی صوت پیدا کر دی کہ مولانا عبد الجبار غازی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا عبد الغفار حسن، مولانا عبد الرحیم اشرف، مولانا افتخار احمد بلخی، شیخ سلطان احمد، میاں فضل احمد، چودھری عبد الحمید اور جناب سعید ملک سمیت جماعت کی قیادت کی پوری صف دوم، اور راقم الحروف ایسے بہت سے نوجوان کارکن جماعت سے علیحدہ ہو گئے۔ راقم نے جب ۱۹۶۶ء میں مولانا مودودی مرحوم کے ان اقدامات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات و واقعات کی ’روداد‘ قلمبند کرنے کا ارادہ کیا تو دفعۃً ذہن سورۂ نحل کی متذکرہ بالا آیت کی جانب منتقل ہوا، چنانچہ ’’نقض غزل‘‘ ہی کو اس تلخ داستان کا عنوان بنا لیا۔
                                   اس تحریر کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ: ’راقم الحروف نے جو بیان جائزہ کمیٹی کی خدمت میں پیش کیا تھا وہ کمیٹی کو پیش کئے جانے والے تحریری بیانوں میں سب سے زیادہ طویل تھا‘‘۔ لہٰذا ضروری ہے کہ سب سے پہلے ’’جائزہ کمیٹی‘‘ کا اجمالی تعارف کرا دیا جائے۔ اور اس کے لیے بجائے اس کے کہ اب کچھ لکھا جائے مناسب ہے کہ انہی الفاظ کو درج کر دیا جائے جو راقم نے ۱۹۶۶ء میں اپنے دس سال قبل کے تحریر شدہ ’بیان‘ کو ’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کرتے وقت اس کے دیباچے میں تحریر کئے تھے۔ یعنی:
                                  ’’پیش نظر تحریر در اصل ایک بیان ہے جو بحیثیت رکن جماعت اسلامی راقم