:

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرَّحیم


                                            حمد و ثنا کے بعد آیۂ کریمہ {وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾} تلاوت کی گئی اور عرض کیا گیا:
بزرگو اور بھائیو!
                                          حقیقت یہ ہے کہ میرا یہ مقام ہرگز نہ تھا کہ میں ایسے عظیم الشان دینی اجتماع سے خطاب کرتا‘ تاہم جب آپ حضرات کا حکم ہے تو میں کچھ معروضات پیش خدمت کرتا ہوں۔ اور اب جبکہ آپ حضرات سے ہم کلام ہونے کا ایک موقع مل ہی گیا ہے تو کوشش کرتا ہوں کہ ایسی بات آپ کے گوش گزار کروں جو حقیقتاً مفید ہو اور جس سے کم از کم ان لوگوں کو ضرور فائدہ پہنچے جو
{اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ ﴿۳۷﴾} کی کیفیت کے ساتھ ان گزارشات کو سنیں‘ اس لیے کہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں امید کی جا سکتی ہے کہ ؏

شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات!


میں نے اپنی گزارشات کا عنوان قرآن حکیم کی اس آیت کو بنایا ہے :
{وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾} (حٰم السجدۃ)
’’اس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور یہ کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں!‘‘
یعنی میری آج کی گزارشات کا موضوع ہے ’’دعوت الی اللہ‘‘۔ اس موضوع کا انتخاب میں نے دووجوہات کی بنا پر کیا ہے:


(۱) اُمت کا فرضِ منصبی


ایک یہ کہ میں اورآپ جس امت کے افراد ہیں‘ اس کا مقصدوجود اور غرضِ تأسیس ہی ’’دعوت الی اللہ‘‘ ہے ‘اور دنیا میں ہماری عزت اور سربلندی ہی نہیں ہمارے وجود اور بقا کا انحصار