میں نے اپنی گزارشات کا عنوان قرآن حکیم کی اس آیت کو بنایا ہے :
{وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾} (حٰم السجدۃ)
’’اس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور یہ کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں!‘‘
یعنی میری آج کی گزارشات کا موضوع ہے ’’دعوت الی اللہ‘‘۔ اس موضوع کا انتخاب میں نے دووجوہات کی بنا پر کیا ہے:
(۱) اُمت کا فرضِ منصبی
ایک یہ کہ میں اورآپ جس امت کے افراد ہیں‘ اس کا مقصدوجود اور غرضِ تأسیس ہی ’’دعوت الی اللہ‘‘ ہے ‘اور دنیا میں ہماری عزت اور سربلندی ہی نہیں ہمارے وجود اور بقا کا انحصار بھی اسی بات پر ہے کہ ہم اپنے اس فرضِ منصبی کو کماحقہ ٗادا کریں۔ سورۃ البقرۃ کے سترہویں رکوع میں تحویل قبلہ کے حکم کے ساتھ ہی یہ آیت وارد ہوئی ہے کہ:
{وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ}(آیت ۱۴۳)
’’ہم نے تمہیں ایک اُمت وسط اس لیے بنایا ہے کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول (ﷺ) تم پر گواہ ہوں ۔‘‘