بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
بیسویں صدی عیسوی کے آغاز اور چودھویں صدی ہجری کے ربع اوّل کے اختتام کے لگ بھگ جو عظیم شخصیت بیک وقت برعظیم پاک و ہند کے سیاسی و قومی افق پر بھی ضو فشاں تھی، اور ملت اسلامیہ ہندیہ کے دینی و روحانی افق پر بھی خورشیدِ جہانتاب کے مانند چمک رہی تھی، وہ اسیرِ مالٹا مولانا محمود حسن رحمہ اللہ تعالی کی تھی، جنہیں ملت کے با شعور طبقات نے بجا طور پر شیخ الہند کا خطاب دیا۔۔۔ انہوں نے تقریباً نصف صدی تک روایتی تدریس و تعلیم اور تصنیف و تالیف میں مشغول، اور جہادِ حریت و استخلاصِ وطن میں سرگرم رہنے کے بعد، اپنی حیاتِ دنیوی کے آخری ایام میں جبکہ ان کی عمر ستر سال سے متجاوز ہوچکی تھی، اور بقول مولانا ابو الکلام آزاد "ان کا قد بھی ان کے دل کی مانند اللہ کے آگے جھک چکا تھا" دار العلوم دیوبند میں منعقدہ ایک اہم اجتماع میں حلقۂ دیوبند کے جملہ اکابر علماء کی موجودگی میں اپنی پونے چار سالہ اسیری کے دوران کے غور و خوض کا حاصل، اور تامل و تفکر کا نچوڑ ان الفاظ میں بیان کیا:
"میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے۔ ایک ان کا قرآن چھوڑ دینا، دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی، اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معنا عام کیا جائے۔ بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب بستی بستی قائم کیے جائیں۔ بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے، اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے"