:


پیش لفظ 


                              ڈاکٹر اسرار احمد بنیادی طو رپر اس بحربے کنار کے غوطہ خور ہیں جسے اللہ رب العزت نے انسانوں کی ہدایت کے لیے سرور کائنات کے ذریعے رواں دواں کیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد کہتے ہیں کہ لڑکپن میں ہی اُنہیں قرآن کے سحر انگیز بیان اور اُس کے حسین اندازِ ابلاغ نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ راقم کی نظر میں ہدایت کے اِس سمندر میں ڈبکی لگانے والا ہر وہ طالب علم کامیاب و کامران رہا جس نے تفسیر نبوی ؐکی روشنی میں قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی کیونکہ قرآن کے حقیقی مفسر تو صرف اور صرف نبی اکرمؐ ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے اس حقیقت کا صحیح ادراک کیا، چنانچہ فہم قرآن اور تفہیم قرآن کے لیے ہمیشہ حدیث نبوی ؐسے راہنمائی حاصل کی۔ قرآن کا اعجازہے کہ وہ اپنے قاری کو ذہنی وسعت عطا کرتا ہے چنانچہ نو عمری میں ہی کلام اقبال کو سمجھنے کی بھی اچھی خاصی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ جب سکول کے طالب علم تھے تو جماعت اسلامی اپنے ابتدائی مراحل طے کر رہی تھی اور مولانا مودودی ؒ کی تحریریں باشعور مسلمانوں کے اذہان میں ہلچل مچا رہی تھیں۔ لہٰذا کلام اقبال اور مولانا کی تحریروں نے دو آتشہ کا کام کیا۔ نتیجتاً جہاں ذاتی اور انفرادی سطح پر قرآن کا مردِ مطلوب بننے کی سعی و جہد شروع کی وہاں اجتماعی و ریاستی سطح پر ایسا انقلاب برپا کرنے کی آرزو پیدا ہوئی جس سے وہ اسلامی فلاحی ریاست جنم لے جو دنیا کو خلافت راشدہ کے دور کی جھلک دکھا دے چنانچہ دروس قرآن کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا جس میں اس بات پر بھرپور طریقے سے زور دیا گیا کہ دوسرے مذاہب کی طرح اسلام محض ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک دین ہے، مذہب یقینا اس کل کا جزو لاینفک ہے لیکن بدقسمتی سے دوصدی کی غلامی سے انسانی زندگی کے اجتماعی پہلو نظروں سے اوجھل ہو گئے اور اسلام بسم اللہ کے گنبد میں بند کر دیا گیا۔ اس امر کی شدید ضرورت تھی کہ اجتماعی زندگی کے شعبوں یعنی سیاست، معاشرت اور معیشت پر کھل کر بات کی جائے۔ لہٰذا دروس قرآن کے ساتھ ساتھ