لہٰذا کلام اقبال اور مولانا کی تحریروں نے دو آتشہ کا کام کیا۔ نتیجتاً جہاں ذاتی اور انفرادی سطح پر قرآن کا مردِ مطلوب بننے کی سعی و جہد شروع کی وہاں اجتماعی و ریاستی سطح پر ایسا انقلاب برپا کرنے کی آرزو پیدا ہوئی جس سے وہ اسلامی فلاحی ریاست جنم لے جو دنیا کو خلافت راشدہ کے دور کی جھلک دکھا دے چنانچہ دروس قرآن کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا جس میں اس بات پر بھرپور طریقے سے زور دیا گیا کہ دوسرے مذاہب کی طرح اسلام محض ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک دین ہے، مذہب یقینا اس کل کا جزو لاینفک ہے لیکن بدقسمتی سے دوصدی کی غلامی سے انسانی زندگی کے اجتماعی پہلو نظروں سے اوجھل ہو گئے اور اسلام بسم اللہ کے گنبد میں بند کر دیا گیا۔ اس امر کی شدید ضرورت تھی کہ اجتماعی زندگی کے شعبوں یعنی سیاست، معاشرت اور معیشت پر کھل کر بات کی جائے۔ لہٰذا دروس قرآن کے ساتھ ساتھ