:


تقریر مولانا عبدالغفار حسن


حمد و ثنا کے بعد
رفقائے محترم!
                                             صبح کے درسِ قرآن‘ پھر قرارداد اور اس کی توضیح اور سب سے بڑھ کر مولانا اصلاحی کی تقریرسے معاملے کے اکثر پہلو اچھی طرح واضح ہو چکے ہیں اور اب میری تقریر کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی‘ تاہم جو خدمت میرے سپرد ہے میں اس کی انجام دہی میں بعض باتیں آپ حضرات کے سامنے رکھتا ہوں۔ تکرار سے بھی کم از کم تذکیر کا فائدہ تو حاصل ہو ہی جائے گا۔
                                            ایک نئی دینی جماعت کے قیام کے فیصلے پر سب سے پہلے جو سوال ذہنوں میں پیدا ہونا لازمی ہے وہ یہ ہے کہ آخر ایک نئی جماعت کی ضرورت کیا ہے! اوّلاً کیا انفرادی طور پر کام کرنا کافی نہیں ہے؟ ثانیاً اگر اجتماعیت لازمی ہے تو بھی ڈیڑھ اینٹ کی ایک نئی مسجد الگ بنانے کی کیا حاجت ہے؟ بہت سی دینی تنظیمیں اور جماعتیں موجود ہیں‘ کیوں نہ ان میں سے کسی کے ساتھ شامل ہو کر کام کیا جائے؟
                                        جہاں تک اجتماعیت کی ضرورت و اہمیت کا تعلق ہے ‘اس پر مولانا اصلاحی بہت مفصل روشنی ڈال چکے ہیں۔ یہ بدیہی بات ہے کہ بہت سے لوگوں کے علیحدہ علیحدہ کام کرنے اور ان سب کے مل کر اجتماعی طور پر کام کرنے میں نتائج کے اعتبار سے زمین آسمان کا فرق واقع ہو جاتا ہے۔ اجتماعیت میں ہر فرد ایک دوسرے کا سہارا اور ایک دوسرے کی کمی پورا کرنے والا ہوتا ہے ‘جس سے کام میں عظیم برکت پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ نے مختلف لوگوں کو مختلف صلاحیتیں دی ہیں۔ کسی کو بولنے کی صلاحیت دی ہے‘ کسی کو لکھنے کی‘ کسی کو بھاگ دوڑ کی قوت دی ہے‘ کسی کو غور و فکر اور تدبر و تفکر کی۔ اسی طرح کسی کوعلومِ دینی سے سرفراز فرمایا ہے اور کسی کو معلوماتِ دنیوی سے بہرہ ور فرمایا ہے۔ کسی کو فہم قرآن کے بحرِ عمیق میں غوطے لگانے کی صلاحیت دی ہے تو کسی کو علومِ حدیث کی وسعتوں میں پیراکی کی صلاحیت سے نوازا ہے۔