:

توضیحات
                                              قرارداد میں جن اُمور کی وضاحت کی گئی ہے ان میں اوّلین اور اہم ترین امر یہ ہے کہ ’’ہمارے نزدیک دین کا اصل مخاطب فرد ہے۔ اسی کی اخلاقی اور روحانی تکمیل اور فلاح و نجات‘ دین کا اـ صل موضوع ہے اور پیش نظر اجتماعیت اصلاً اسی لیے مطلوب ہے کہ وہ فرد کو اس کے اصل نصب العین یعنی رضائے الٰہی کے حصول میں مدد دے! ‘‘--- اس تصریح کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ماضی میں مسلمانوں کو ان کی یہ ذمہ داری تو بالکل ٹھیک یاد کرائی گئی کہ جس دین کے وہ مدعی ہیں اسے دنیا میں عملاً قائم کرنے کی سعی و جہد بھی ان پر فرض ہے اور یہ کہ دین محض ذاتی عقائد اور کچھ مراسمِ عبودیت یعنی انسان اور رب کے مابین پرائیویٹ تعلق کا نام نہیں ہے بلکہ وہ انسان کی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی کو اپنے احاطے میں لینا چاہتا ہے لیکن ان اُمور پر اس قدر زور دیا گیا کہ بندے اور رب کے مابین تعلق کی اہمیت اور افراد کی اپنی علمی‘ اخلاقی اور رُوحانی ترقی نظر انداز ہوتی چلی گئی۔ آئندہ جو کام پیش نظر ہے اُس کے اُصول و مبادی میں یہ نکتہ بہت زیادہ قابل لحاظ رہے گا کہ ایک مسلمان کا اصل نصب العین صرف نجات اُخروی اور رضائے الٰہی کا حصول ہے اور اس کے لیے اسے اصل زور اپنی سیرت کے تطہیر و تزکیے اور اپنی شخصیت کی تعمیر و تکمیل پر دینا ہو گا‘ جس سے تعلق مع اللہ اور محبت خدا اور رسول ﷺ میں اضافہ ہوتا رہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ اخلاص پیدا ہوتا چلا جائے۔ دین کی تائید و نصرت اور شہادت و اقامت یقینا فرائض دینی میں سے ہیں لیکن ان کے لیے کوئی ایسی اجتماعی جدوجہد ہرگز جائز نہیں