:


درس ۱۵

تواصی بالحق کا ذروۂ سنام
جہاد و قتال فی سبیل اللہ 



         سورۃ التوبہ اور سورۃ الحجرات کی روشنی میں

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ۔ اَمَّا بَعْدُ:
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

{اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾} (الحُجُرٰت)
{قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾} (التوبۃ)
                           الحمد للہ کہ ہم اِس وقت مطالعۂ قرآن حکیم کے اس منتخب نصاب کے حصّہ چہارم کا آغاز کر رہے ہیں۔ یہ حصّہ ’’سورۃ العصر‘‘ میں وارد شدہ لوازمِ فوز و فلاح یا آسان الفاظ میں شرائط نجات میں سے تیسری شرط یعنی تواصی بالحق کی مزید تشریح اور تفصیل پر مشتمل ہے۔ اس ضمن میں ہمارے اس منتخب نصاب میں مختلف مواقع پر جو مباحث آچکے ہیں‘ آگے بڑھنے سے قبل ان پر ذرا ایک نگاہِ بازگشت ڈال لینا مفید ہو گا۔ سب سے پہلے تو ’’تَوَاصِیْ بِالْحَقِّ‘‘ کی اصطلاح ہی پر دوبارہ غور کر لیجیے۔ لفظ ’’تواصی‘‘ وصیت سے بنا ہے اور وصیت میں تاکید کا مفہوم بھی شامل ہے۔ کوئی بات ناصحانہ انداز میں‘ خیر خواہی کے جذبے کے تحت‘ انتہائی شد و مد کے ساتھ کہی جائے تو عربی زبان میں اسے وصیت سے تعبیر کیا جائے گا۔ پھر جب یہ لفظ بابِ تفاعل سے آیا ‘یعنی ’’تواصی‘‘ تو اس میں مبالغے کا مفہوم بھی پیدا ہو گیا۔ یعنی یہ عمل بڑے اہتمام اور پوری شدت و تاکید کے ساتھ مطلوب ہے۔ دوسری طرف مزید توجہ دلا دی