:


باب ہشتم
نُصرت و حفاظت ِ خداوندی


                                قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک کے لگ بھگ اُنتالیس سالوں کے دَوران بھی متعدد مواقع پر پاکستان کی حفاظت و صیانت جس طرح ایک نادیدہ مگر قوی ہاتھ نے بالکل اس انداز میں کی کہ ؏ 

’’دشمنوںاگر قوی ست نگہبان قوی تراست!‘‘ 


تو یہ بھی ایک واضح اور بیّن ثبوت ہے اِس کا کہ قدرت کو پاکستان کی بقا اپنے کسی منصوبے کی تکمیل کے لیے مطلوب ہے۔
                              اس ضمن میں اوّلاً قیام پاکستان کے فوراً بعد کی پہاڑ جیسی مشکلات اور حدود درجہ پیچیدہ مسائل کا تصور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ قطعاً بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان نے ان کا مقابلہ و مواجہہ جس کامیابی کے ساتھ کیا، اُس کا اللہ تعالیٰ کی خصوصی تائید اور نصرت کے بغیر قطعاً کوئی امکان نہ تھا۔


مشترکہ دفاع کی پیشکش 


                            خاص طور پر ۱۹۶۲ء کی چین بھارت جنگ کے فوراً بعد، جب کہ بھارت انتہائی ذلت و خفت کے ساتھ اپنے زخم چاٹ رہا تھا، سابق صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان کی جانب سے بھارت کو ’’مشترکہ دفاع‘‘ کی پیش کش کے معاملے پر غور کیا جائے تو ایک بار پھر کیبنٹ مشن پلان والا معاملہ نظر آتا ہے____ پاکستان پر اُس وقت تک ایوب خان کی گرفت بہت مضبوط تھی اور کم از کم بظاہر احوال اندرونِ ملک اس تجویز پر کسی شدید ردّ عمل کا کوئی اندیشہ نہ تھا اور اس تجویز پر عمل درآمد کے معنی قطعی طور پر یہ تھے کہ گویا ہم ایک بار پھر آزاد و خود مختار پاکستان سے از خود دستبردار ہو کر سجدۂ سہو ادا کرتے ہوئے کیبنٹ مشن پلان کی جانب سے رجوع کر رہے ہیں، اور اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ مولانا