:


باب ششم
پاکستان کا معجزانہ قیام 


                       ہمارے قومی اور ملی وجود کی تصویر کا روشن اور تابناک رُخ بالکلیہ ارادہ ٔمشیت ایزدی اور تائید و نصرت الٰہی کا مظہر ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کا عالم وجود میں ظہور بھی ایک خالص ’’معجزہ‘‘ کی حیثیت سے ہوا تھا اور اُس کا اب تک قائم رہنا بھی ’’معجزات‘‘ ہی کے تسلسل کامرہونِ منت ہے۔
یہ امور اگرچہ اصلاً ؏ 

’’رازِ خدائی ہے یہ، کہ نہیں سکتی زباں!‘‘ 


کے ذیل میں آتے ہیں اور اس قبیل کے اِکّا دُکّا واقعات کو تو پہچاننا بھی صرف اُن لوگوں کا کام ہے جن کا باطن منور ہو اور جو ؏

’’گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود!‘‘ 


                              کی کیفیت کے ضمن میں رُسوخِ تام حاصل کر چکے ہوں____ تاہم جب ا ِن ’’معجزات‘‘ کا تسلسل ہو اور خارِقِ عادتِ واقعات پے در پے ظہور پذیر ہو رہے ہوں تو ایک عامی انسان بھی ان کا ادراک کر سکتا ہے، بشرطیکہ اُسے ایک ایسے قادرِ مطلق اور فاعل حقیقی خدا پر کسی درجے میں ایمان حاصل ہو، جو اس کائنات کا خالق، باری اور مصور ہی نہیں، مالک، حاکم اور مدبر بھی ہے۔ چنانچہ کل سلسلۂ اسباب و علل اُس کے قبضۂ قدرت میں ہے اور نتائج و عواقب کا ظہور بالکلیہ اسی کے اذن و مشیت کے تابع ہے، یہاں تک کہ ایک پتہ بھی اُس کے علم و اِذن کے بغیر جنبش نہیں کر سکتا اور ایک حدیث نبویؐ کے مطابق ’’تمام انسانوں کے دل اس کی دو انگلیوں کے مابین ہیں، انہیں جدھر چاہے پھیر دیتا ہے۔‘‘
                             چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے قیام و بقا کے ضمن میں ’’معجزانہ‘‘ نوعیت کے واقعات کا ظہور اس تسلسل کے ساتھ ہوا ہے کہ کوئی بالکل ہی کو رباطن ہو تو اوربات ہے،