:


مقدمہ

چند ذاتی وضاحتیں 


                          آگے بڑھنے سے قبل دو باتیں بطور تمہیدعرض کرتی ہیں جن کی حیثیت ’’ذاتی وضاحتوں، (Points of Personal Explanation) کی ہے:
                           پہلی یہ کہ میرے بارے میں یہ بات عام طو رپر بھی مشہور ہے اور خود میں نے بھی اس کا بارہا اظہار کیا ہے کہ میں معروف معنی اور مروجہ مفہوم کے اعتبار سے ہرگز ایک سیاسی آدمی نہیں ہوں۔ چنانچہ میں نے جو دو تنظیمی ہئیتیں قائم کی ہیں اُن میں سے ایک یعنی انجمن خدام القرآن کے بارے میں بھی سب جانتے ہیں کہ وہ ایک خالص علمی و تعلیمی اور تدریسی و تربیتی ادارہ ہے جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور اس تعلیم و تدریس اور نشر واشاعت کے ضمن میں بھی اُس کا کل مرکز و محور قرآنِ حکیم ہے۔ پھر اس کا نام خود ظاہر کر رہا ہے کہ یہ کوئی سیاسی جماعت تو کیا سرے سے جماعت ہی نہیں ہے بلکہ محض ایک انجمن
(Society) ہے اور اس کی سرگرمیوں کا مظہر اتم ’’قرآن اکیڈمی‘‘ ہے، جو معروف معنی میں صرف ایک ’’ادارہ‘‘ (Institution) ہے۔ اسی طرح ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے میں نے جو’’ جماعت‘‘ قائم کی ہے وہ اگرچہ محدود معنی میں انجمن یا ادارہ نہیں ہے بلکہ باضابطہ ’’جماعت ‘‘ ہے، لیکن اُس کا بھی یہ پختہ فیصلہ ہے کہ وہ کبھی ملکی انتخاباتمیں حصہ نہیں لے گی۔ لہٰذا یہ بھی مروجہ مفہوم کے اعتبار سے سیاسی جماعت نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ مارشل لاء کے ساڑھے آٹھ سالہ دور میں نہ اس پر کوئی پابندی لگی، نہ اس کی سرگرمیوں پر کوئی روک ٹوک ہوئی۔
اِس پس منظر میں جب پیش نظر تحریر میں بعض سیاسی اُمور پر تفصیلی گفتگو لوگوں کے سامنے آئے گی تو اِس سے ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو ’’تضاد‘‘
(Contradiction) کا احساس ہو۔
اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ’’سیاست‘‘ اگرچہ فی الاصل ایک نہایت وسیع مفہوم کی حامل اصطلاح