مقدمہ
پاکستان کی عمر کا چالیسو ا ں (۴۰)سال
اور اُس کی دینی و تاریخی اہمیت
چونکہ ہم بالعموم شمسی تقویم کے عادی ہیں، لہٰذا عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ۱۴/ اگست ۱۹۸۵ء کو پاکستان نے اُنتالیسواں یوم استقلال منایا ہے۔ گویا اُس روز اس نے اپنی عمر کے اڑتیس سال پورے کر کے اُنتالیسویں سال میں قدم رکھ دیا ہے، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ہماری دینی تقویم قمری ہے۔ اُس کے حساب سے دیکھا جائے تو کسی قدر مختلف معاملہ سامنے آتا ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کا قیام ۲۷/ رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ کو عمل میں آیا تھا۔ اس طرح ۲۷/رمضان المبارک ۱۴۰۵ھ کو اُس کی عمر کے اُنتالیس سال پورے ہو گئے ہیں اور اُس نے چالیسیویں سال میں قدم رکھ دیا ہے۔ (اور ان سطور کی تحریر کے وقت اُس چالیسویں سال کے بھی چار ماہ سے زائد گزر چکے ہیں)
انسان کی پختگی کی عمر، چالیس سال
یہ بات تو قرآنِ حکیم کا ہر طالب علم اور دینی مزاج کا حامل ہر شخص جانتا ہے کہ انسانی زندگی میں چالیس سال کی عمر کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور انسان کی پختگی کی عمر چالیس برس ہے۔ چنانچہ سورۂ احقاف کی آیت نمبر ۱۵ میں یہ الفاظِ مبارکہ وارد ہوئے ہیں:
{حَتّٰی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ……}(الایۃ)
’’یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری پختگی کو پہنچا اور چالیس برس کی عمر کو پہنچ گیا تو اس نے کہا…‘‘